مرداں چنیں کنند

835

عنایت علی خان

تو پھر ایک لطیفے سے لطف اٹھائیے۔
ایک صاحب نے ایک نوع کی دوسری نوع میں تبدیلی کی مثال دیتے ہوئے یہ کہا کہ چھپکلی کنویں کے قریب بیٹھی تھی کہ کسی پنھیاری کا مٹکا ٹوٹا اور اس کے نصف زیرین حصہ نے چھپکلی کو ڈھانپ لیا۔ اب چھپکلی اس ٹھیکری کے نیچے سے آنے والے پانی کے سبب پھولتی رہی اور بالآخر مینڈک بن گئی۔ سوال کیا گیا اور اس کی دُم؟ جواب ملا آپ دُم کی طرف خیال ہی نہ کریں ۔پھر وہ مینڈک چھلانگیں لگاتا رہا یہاں تک کہ بٹیر بن گیا یہاں بھی سوال پروں کے پیدا ہوجانے کا تھا اس کا جواب بھی یہی تھا کہ پروں کو پرے کریں آپ نظریہ ارتقا کو مان لیں۔ اس نظریے کی تاریخی حقیقت کے بارے میں راقم نے کہیں پڑھا کہ خود ڈارون نے جس کے نظریے کو نوع انسان کی پیدائش کا سلسلہ بتایا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں نظریہ تخلیق آدم کی نفی اور خدا کی نفی کی جاتی ہے اس کے بارے میں اپنے اُستاد کو ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’میں نے تو اپنے تجربات کی بنا پر ایک نظریہ پیش کیا تھا‘ خدا کا انکار کب کیا تھا‘‘ لیکن عقل سے آگے نہ بڑھنے کی قسم کھانے والوں کی مجبوری ہے کہ
حسرت پھر اور کریں کس کی بندگی
اچھا‘ جو سر اٹھائیں بھی اس آستاں سے ہم
بات ترکی کے نصاب سے نظریہ ارتقا کے اخراج سے چلی تھی اور نظریے کی تکمیل کی مدت کی طرح دراز ہوتی چلی گئی تو اسے مختصر الفاظ میں اکبر کی زبان میں سن لیجیے جو کہتے ہیں۔
کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا بوزنا (بندر) ہوں میں
ہنس کے کہنے لگے مرے اک دوست
فکر ہر کَس بہ قدر ہمت اَوست
انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو نصاب میں نظریہ ارتقا پڑھانے کی طرح ڈالی تو اکبر بول اُٹھے۔
تمہارے کھیت سے لے جاتے ہیں بندر چنے کیوں کر
یہ نکتہ اہم ہے یا حضرت آدم بنے کیوں کر
(اہل ذوق لفظ بندر کی معنویت کی داد دیں)



a

جہاں تک ہمارے نام نہاد اسلامی ملک کے نصاب تعلیم کا تعلق ہے تو متعدد نصابی کمیشنوں اور کمیٹیوں کی تشکیل کے باوجود پرنالہ اسی میکالے کی سفارشات کے مطابق تشکیل شدہ پالیسی ہی پر گر رہا ہے۔ لطف یہ ہے کہ ہر کمیٹی کی سفارشات میں اسلامی نظریہ حیات کا ذکر ضرور ہوتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے ساتھ اس عنصر کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے لیکن عملاً یہ ذکر برائے برکت ہی ہوتا ہے۔ ہاں مرحوم ضیا الحق نے ایک مہم کے ذریعے بارہویں جماعت تک کی نصابی کتب سے اسلام اور پاکستان سے منافی مواد کے اخراج کا اہتمام ضرور کیا تھا۔ نیز پروفیشنل کالجوں میں بھی ایک مختصر سی اسلامیات کی کتاب کو شامل نصاب کرایا تھا لیکن اُس کوشش کے اثرات ختم کرانے کے لیے یونیسیف کی امداد میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی نصاب سازی کے ماہرین بھی تشریف لائے، امدادی رقم تو حسب معمول کہیں سے کہیں پہنچی البتہ امداد کے ساتھ ننھی ہدایات پر پورے اخلاص سے عمل کیا گیا۔ یہ کام پرویز مشرف کے زمانے میں عروج پر پہنچا اور جب نصاب سے اسلامی موضوعات اور قرآن خارج کرنے پر احتجاج ہوا تو اُس وقت کے وفاقی وزیر تعلیم پرویز اشرف صاحب نے ٹی وی پر اس ’’پروپیگنڈے‘‘ کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ الزام بالکل غلط ہے ہم تو آٹھویں جماعت تک قرآن کے پورے ’’چالیس پارے‘‘ پڑھوارہے ہیں۔
ہائے کن ہاتھوں میں تقدیر حنا ٹھیری ہے‘‘۔ رہی سہی کسر آٹھویں ترمیم کے تحت شعبہ تعلیم صوبوں کو تفویض ہونے نے پوری کردی، جب صوبائی وزیر تعلیم صاحب نے ٹیکسٹ بک بورڈ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ضیا الحق نے نصاب کا حلیہ بگاڑ دیا تھا ہم اس کی اصلاح کررہے ہیں۔ اور اصلاح کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو کہ آٹھویں جماعت کی سماجی علوم کی کتاب میں دینی شخصیات، امہات المومنین اور سیدہ فاطمہؓ اور زینبؓ کی جگہ نصرت بھٹو اور ہندو گلوکار مائی بھاگی پر اسباق شامل کیے گئے اور اب اسکیم یہ لائی جارہی ہے کہ اسلامیات اور تاریخ پاکستان کو یکجا کرکے اسلامیات کی اہمیت کو مزید گھٹایا جارہا ہے۔ یہ تو سرکاری اسکولوں کا حشر ہورہا ہے، ان کی خستہ حالی اور کسمپرسی کے نتیجے میں قائم ہونے والے درجہ اوّل اور درجہ متوسط کے اداروں کا اعتبار ہی اس وقت قائم ہوتا ہے جب اُن میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا نصاب لگا ہو جس میں اسلامی نظریے کی تلاش کا رِعبث ہے۔ پاکستان کی نئی نسل ان نصابی سانچوں میں ڈھل کر کتنے فی صد مسلمان اور محب وطن پاکستانی رہ پائے گی مقام فکر ہے لیکن اس فکری خودکشی سے اُسے بچانے کے لیے اردوان جیسی قیادت کی ضرورت ہے۔ کاش قوم کو اس امر کا احساس ہوجائے۔