ملکی معیشت پر بیانات کی لہر

261

گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستانی معیشت بیانات اور الزامات کی زد میں ہے۔ایک طرف اہم ترین شخصیات کی طرف سے معاشی صورتحال پر بجا طورپر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ حکومت مسلسل دفاعی بیانات جاری کررہی ہے۔ سیدھی سی بات ہے اگر ملکی معیشت مجموطی طور پر بہتری کی سمت میں جاری ہوتی تو کسی کو کیا ضرورت کہ اس پر اپنے خدشات واحساسات کا اظہار کرے۔ لازمی طور پر کچھ ایسی کمزوریاں ہیں جن کے باعث ہر محب وطن پاکستانی معیشت کے معاملے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے۔
پچھلے ہفتے ’’معیشت اور سلامتی ‘‘کے موضوع پر سیمینار سے کراچی میں خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ نے معیشت اور قومی سلامتی کو جڑواں قرار دیا اور کہا کہ معیشت اور سلامتی کے درمیان قابل عمل توازن کو یقینی بنانا ہوگا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بے شک انفرااسٹرکچر اور توانائی میں بہتری آئی ہے۔ مگر قرضے بھی بڑھ گئے ہیں تجارتی توازن خراب ہوگیا ہے۔ جی ڈی پی کے حساب سے ٹیکسوں کی شرح کم ہے ۔ کرنٹ اکاؤنٹ توازن ہمارے حق میں نہیں۔ عام آدمی کے معاملے میں حکومت کا کردار بہت کمزور ہے۔
یہ وہ تمام باتیں ہیں جو ان صفحات پر ایک عرصے سے بیان کی جارہی ہیں صرف یہیں نہیں بلکہ معاشی ماہرین، تجزیہ نگار، کاروباری حضرات، عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی معیشت کے بارے میں ایسے ہی اشارے دیتے رہے ہیں مگر حکومت کو سچ بھی برالگتا ہے۔
آرمی چیف نے سیمینار میں جو کچھ بیان کیا اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کچھ باتیں کہہ دیں اس پر وزیر داخلہ احسن اقبال چراغ پا ہوگئے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو ملکی معیشت پر تبصروں سے گریز کرنا چاہیے۔ 2013میں معیشت کا بہت برا حال تھا 2017میں بہت بہتری آئی ہے۔ بجلی کی فراہمی سے صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری ہورہی ہے اس سے درآمدات پر دباؤ ہے مگر یہ قابل برداشت ہے ۔ ٹیکسوں کی وصولیابی میں دُگنا اضافہ ہوا ہے۔ آرمی چیف نے جو کیا اس پر اتفاق کرتے ہیں۔

اس سے اگلے ہی دن وزیر خزانہ اسحاق ڈار میدان میں آگئے اور معیشت کے مستحکم ہونے کی خبر سنائی ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ معاشی ترقی کی شرح ، فی کس آمدنی اور محصولات میں اضافہ ہوا ہے۔ گردشی قرضے 400ارب روپے تک پہنچے ہیں جبکہ پہلے 700ارب روپے کی خبریں مسلسل آرہی تھیں۔ ملکی اور بیرونی قرضے کنٹرول میں ہیں حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔



ایک طرف آپ اتفاق کررہے ہیں تو دوسری طرف ناراضی کا اظہار کررہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ٹیکسوں کی وصولیابی اور برآمدات کے معاملے میں حکومت کی نااہلی، لاپروائی اور غیر ذمے داری بالکل واضح ہے ۔ جہاں تک ٹیکسوں میں اضافے کا معاملے ہے تو یہ سب سیلز ٹیکس ، ودہولڈنگ ٹیکس، سپر ٹیکس، سرچارجز اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے مرہون منت ہے۔ یہ تمام بالواسطہ ٹیکس(Indirect Tax) ہیں جن سے عوام پر، تجارت وصنعت پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔ مثلاً سیلز ٹیکس کی شرح 17فی صدہے حکومت بتائے کہ اتنی اونچی سیلز ٹیکس کی شرح کس ملک میں ہے اگر یہ شرح کم ہوجائے تو قیمتیں کم ہوجائیں گی اور پیداوار میں اضافہ ہوگا اسی طرح کسی قسم کے سرچارجز اور ودہولڈنگ ٹیکس پیداواری سرگرمیوں اور قیمتوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں جبکہ دنیا میں زیادہ حصہ بلاواسطہ ٹیکس (Direct TaX)کا ہوتا ہے جن میں سب سے بڑی مد انکم ٹیکس ہے۔ بڑے بڑے اور بااثر سیاستدان کاروباری حضرات، بیوروکریٹس اور جاگیردار یا تو ٹیکس دیتے نہیں یا پھر بہت معمولی ٹیکس دیتے ہیں صرف ارکان صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹرز حضرات کو دیکھ لیں کہ وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں ۔ صر ف عوام پر اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر فخر کرنا کہ ہم نے ٹیکسوں کی وصولیابی میں اضافہ کیا ہے۔ دھوکا دینے والی بات ہے۔
دوسرا انتہائی شرمناک معاملہ برآمدات کا ہے۔ یہ نہیں کہ برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ مسلسل چار سال سے کمی ہورہی ہے۔ اس پر ہر طرف سے اسحاق ڈار اور خرم دستگیر صاحب کو توجہ دلائی گئی لیکن حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مثلاً کاروباری برآمدی گزشتہ تین سال سے کہہ رہی ہے کہ ایف بی آر کے پاس برآمد کنندگان کے 200ارب روپے کے ایکسپورٹ ریفنڈ واجب الادا ہیں جس کی وجہ سے نقد رقم کی شدید قلت ہے۔ لیکن حکومت نے یہ رقم اب تک ادا نہیں کی۔ دوسرے حکومت کو بتایا گیا کہ بجلی کی بلندی قیمتوں اور ٹیکسوں کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی برآمدات مسابقت کی قوت کھورہی ہے۔ مگر اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ تیسرے یہ کہ برآمدات کے شعبے میں ٹیکسٹائل کی بہت اہمیت ہے مگر ٹیکسٹائل کے سلسلے میں کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی تو ان وجوہات کے باعث برآمدات مسلسل کم ہوتی گئیں۔
حکومت بجائے صفائی پیش کرنے کے اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کو تسلیم کرے اور معاشی بہتری کے لیے ٹھوس قدم اٹھائے۔