پیپلزپارٹی سندھ کے رہنما سابق صوبائی وزیر اطلاعات اور آصف علی زرداری کے خاص ساتھی شرجیل میمن کو گرفتار کرلیاگیا۔ ان پر پونے چھ ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔ عدالت عالیہ سندھ نے پیر کے دن ان کی ضمانت منسوخ کردی تھی چنانچہ جب وہ کئی گھنٹے بعد عدالت سے باہر آئے تو نیب نے انہیں گرفتار کرلیا۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کے وکیلوں اور کارکنوں نے بھی وہی تماشا کیا جو مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی عدالت میں پیشی پر دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی لائرز کمیٹی اور کارکنوں نے شرجیل کی گرفتاری رکوانے کے لیے شدید مزاحمت کی اور نیب کے اہلکاروں سے الجھتے رہے۔ گرفتاری کو ٹالنے کے لیے شرجیل میمن عدالت سے باہر آنے سے گریزاں تھے اور اس اثنا میں اپنے سر پرستوں سے مشورے کرتے رہے۔ اطلاعات کے مطابق ان کو گرفتاری پیش کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ گرفتاری کے فوراً بعد وہ بھی بیمار ہوگئے۔ ان کا سانس رکنے لگا چنانچہ سانس کی روانی بحال کرنے کے لیے ڈاکٹر طلب کرلیے گئے۔ الزامات کا سامنا کرنے والے ’’بڑے لوگ‘‘ ایسے مواقع پر عموماً بیمار پڑ ہی جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا علاج اب تک چل رہا ہے۔ مفتی عبدالقوی تو ایسی بڑی شخصیت نہیں لیکن گرفتار ہوتے ہی ان کو ایک رات میں 5 بار دل کا دورہ پڑگیا، شرجیل میمن کا تو صرف سانس اٹک رہا ہے۔ شرجیل کی گرفتاری نیب کے تحت عمل میں لائی گئی ہے جس کے چیئرمین جاوید اقبال پیپلزپارٹی کا انتخاب ہیں چنانچہ اب پیپلزپارٹی کانیب پر جانبداری کا الزام لگانے کامنہ نہیں رہا۔
تاہم پیپلزپارٹی کے ترجمان منظور چودھری نے ایک بار پھر صوبائی تعصب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور شریف فیملی سے موازنے کی کوشش کی ہے مگر وہ تو خود بھی نیب کے شکنجے میں ہیں اور چند دن پہلے ن لیگ کے حامی مبینہ طور پر مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم کے کئی افراد پکڑے گئے ہیں اور اس پر نواز شریف نے بھی احتجاج کیا ہے حالانکہ حکومت تو اب بھی ن لیگ کی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ ن لیگ ہی کا ہے۔ بہر حال ہر معاملے میں صوبائی تعصب کی آگ پر تیل چھڑکنے کا عمل خطرناک ہے۔ سندھ کے لوگوں سے امتیازی سلوک کا پرچار انتخابی ہتھکنڈا تو ہوسکتا ہے لیکن یہ قومی یکجہتی کے لیے زہر ہے جو پہلے ہی لائق تحسین نہیں۔ شرجیل میمن کی گرفتاری سے لگتا ہے کہ ان کے سرپرستوں نے ہاتھ اٹھالیا ہے۔ یہ افواہیں گردش میں رہی ہیں کہ شرجیل میمن کچھ بڑی شخصیات کے لیے کرپشن کرتے رہے ہیں جو لانچوں کے ذریعے بھاری رقوم دبئی بھجواتے تھے۔ میاں نواز شریف کی طرف سے تو مسلسل یہ صدائیں آرہی ہیں کہ مجھے کیوں نکالا، اب ممکن ہے کہ یہ آواز آئے کہ مجھے کیوں پکڑا۔ شرجیل میمن کو چاہیے کہ اچھے اور بڑے وکلا کی خدمات حاصل کریں اور قانونی طور پر مقدمہ لڑیں۔ آخر ان کے سرپرست آصف علی زرداری بھی تو 16 برس تک مقدمات لڑ لڑ کر ہر الزام سے بری ہوتے گئے۔ پیپلزپارٹی کے منتخب کردہ چیئرمین نیب جاوید اقبال متحرک ہوگئے ہیں اور انہیں اپنی کارکردگی بھی دکھانی ہے۔ چنانچہ ابھی اور کئی مقدمات کھلیں گے اور گرفتاریاں ہوں گی۔ بقول ان کے احتساب بلا امتیاز ہوگا۔ شرجیل میمن پر پونے چھ ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے لیکن کیا ان کے بعد وزارت اطلاعات سندھ میں کرپشن ختم ہوگئی ہے یا اس کا انکشاف بھی ایک عرصے بعد ہوگا۔