پاکستان اور امریکا کی پریم کہانی کو اگر پنجابی کی رومانوی داستان ہیر رانجھا سے تشبیہ دی جائے تو پھر بھارت اس کہانی کا ولن ’’چاچا کیدو‘‘ ہے۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی ہر راہ اب بھارت سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہ وہ خطرناک صورت حال جس کا خمیازہ مدتوں مشرق وسطیٰ نے بھگتا ہے۔ امریکا کے من میں جو ملک ایک بار سما گیا پھر امریکا اپنے اس محبوبِ نظر کے لیے دنیا کے تمام خطرات سے ٹکراتا ہے اور حالات پر جلیل عالی کا یہ شعر صادق آتا ہے
اپنے دیے کو چاند بنانے کے واسطے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا مجھے
مضبوط و مستحکم اسرائیل کے گرد وپیش میں تباہ حال عرب دنیا بجھے ہوئے چراغوں کے ایک ڈھیر کا منظر پیش کر رہی ہے۔ بھارت بھی امریکا کے ساتھ تعلق اور دوستی پر اجارہ داری چاہتا ہے۔ امریکا کا رویہ جونہی پاکستان کے لیے نرم ہوتا ہے بھارت ایک سخت گیر اپروچ کے ساتھ سامنے آتا ہے اور یوں اس سمت میں پیش رفت کا امکان پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کے لیے امریکا کے حوالے سے آپشن محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی آمد سے پہلے ہی امریکا سے کچھ اس نوعیت کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں کہ یہ دورہ بھی’’ڈومور‘‘ کی گردان سے شروع ہو کر ملفوف دھمکیوں پر ختم ہو گا اور اس سے پاک امریکا تعلقات بہتری کی سمت بڑھنے کے بجائے مزید خرابی کی طرف لڑھک جائیں گے۔ یوں لگتا ہے کہ پاک امریکا تعلقات اب اپنی طبی مدت پوری کر چکے ہیں، اب یہ تعلقات مزید مثبت سمت کی طرف رواں نہیں رہ سکتے۔ اس قنوطیت کی ٹھوس وجوہ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی آمیز تقریروں کے بعد کشیدگی کی ہوا چل ہی رہی تھی کہ پاک افغان سرحدی علاقے میں پانچ سال قبل اغوا ہونے والے امریکا اور کینیڈا کے ایک جوڑے کو تین بچوں سمیت بازیاب کر الیا گیا۔
اس کے دوسرے ہی روز امریکا نے ایک ڈرون حملے میں جماعت الاحرار کے سربراہ خالد خراسانی کو ہلاک کیا۔ کہا گیا کہ یہ شخص آرمی پبلک اسکول پشاور سمیت کئی خوں ریز کارروائیوں میں پاکستان کو مطلوب تھا۔ اس طرح خالد خراسانی کی ہلاکت کو امریکی جوڑے کی رہائی کا خیر سگالی جواب قرار دیا گیا۔ امریکی جوڑے کی رہائی پر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی تعریف کی اور اسے اپنی دباؤ ڈالنے کی پالیسی کا نتیجہ اور پاک امریکا تعلقات کا مثبت موڑ قرار دیا۔ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان کا تعاون بتاتا ہے کہ اس نے بحیثیت قوم امریکا کا احترام کرنا شروع کر دیا ہے۔ رہائی پانے والے کینڈین شہری کی ایک وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کا نام لے کر تعریف کی گئی تھی۔ پاکستان کے لیے امریکا کے رویے میں اس تبدیلی کو بھارت میں نوٹ کیا گیا اور راہول گاندھی نے مودی اور ٹرمپ کی معانقوں والی تصاویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں مودی پر گہرا طنز کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’مودی جی جلدی کیجیے ٹرمپ کو ایک بار پھر گلے لگانے کا وقت آگیا ہے‘‘۔ یہ تو ایک طنزیہ ٹویٹ کی بات ہے عین ممکن ہے بھارت نے خاموشی سے امریکا سے احتجاج بھی کیا ہو۔ اس کے بعد پاکستان کے لیے امریکا کا لہجہ بدل گیا۔ جو امریکی چار افراد کی بازیابی کے حوالے سے پاکستان کی تعریفیں کر رہے تھے اب یہ کہنے لگے کہ ان مغویوں کو چار سال سے پاکستان میں ہی رکھا گیا تھا اور یہ کہ اس بات کے ثبوت نہیں ملے کہ مغوی افغانستان میں رہے ہیں۔ یہ بات کہنے میں سی آئی اے کے چیف پیش پیش تھے۔ اس کے بعد سے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور اقوام متحدہ میں امریکا کی مستقل مندوب نیکی ہیلی کے بیانات سامنے آئے جن میں کہا گیا کہ امریکا کو پاکستان پر نظر رکھنے کے لیے بھارت کی ضرورت ہے کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار دہشت گرد وں کے ہاتھ نہ لگیں۔
امریکا کی اس بات سے بلی پوری طرح تھیلی سے باہر آگئی ہے کہ امریکا کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے مسئلہ ہے اور وہ بھارت کو کسی مرحلے پر پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ گویا کہ آپریشن کولڈ اسٹارٹ صرف بھارت کا منصوبہ نہیں بلکہ اس منصوبے کو پلان بی کے تحت امریکا کی حمایت بھی حاصل ہے اور اس آپریشن کو ناکام بنانے کی غرض سے تیار کیے جانے والے پاکستان کے چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں سے امریکا کی بے چینی کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔
یہ بیانیہ درست ہے تو پھر پاکستان کے لیے امریکا اور بھارت میں زیادہ فرق باقی نہیں رہا۔ ریکس ٹلرسن کے دورے سے پہلے امریکی حکومت کے ترجمان کا ایک بیان ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہوا جس میں نریندر مودی کی شان میں قصیدے پڑھے گئے تھے۔ پاکستان پر بھارت کے الزامات کو وکالت اور تائید کے انداز میں بیان کیا گیا تھا۔ بیان کے چند جملے یوں تھے کہ: ’’نریندر مودی پاکستان کے ساتھ امن چاہتے ہیں مگر بھارت کی سلامتی کی قیمت پر نہیں۔‘ پٹھان کوٹ سمیت بہت سے واقعات سے بھارت کو دھچکے لگے۔ ہم پاکستانی فوج کو بھارت سے تجارتی تعلقات کے لیے قائل کررہے ہیں۔‘ ٹرمپ نریندر مودی کی شخصیت، قائدانہ صلاحیت اور دانش کے لیے احترام کے جذبات رکھتے ہیں۔‘‘ اس پورے بیان میں پاکستان کے لیے ایک اچھا جملہ تک نہیں تھا۔ یہ حالات بتارہے ہیں پاکستان کے پاس اب امریکا سے فاصلہ پیدا کرنے اور امریکی اثر رسوخ سے باہر نکلنے کا واحد آپشن باقی رہ گیا ہے۔