کراچی کی سیاست کا مستقبل

558

22 اگست 2016 کے بعد سے کراچی کی سیاست میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگائے اس کے دوسرے دن 23اگست سے فاروق ستار نے ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے مہاجر سیاست کا آغاز کیا تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، مےئر کراچی وسیم احمد اور تمام یوسیز اور ٹاؤن کے چےئرمین ان کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف الطاف حسین نے فاروق ستار کے ان اقدامات کو پسند نہیں کیا اور ایم کیو ایم لندن کے نام سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا جو کچھ عرصے تک تو جاری رہیں لیکن کراچی میں افرادی قوت نہ ہونے کے سبب ان کی سیاسی سرگرمیاں اس لیے عوامی حمایت حاصل نہ کرسکیں کہ ان کے پاس ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر تھے جو ریاستی اقدامات کے مقابلے میں جواں مردی کا مظاہرہ کرپاتے۔ کراچی کی سیاست کی منصوبہ بندی کرنے والے لوگوں کو 22اگست کی حادثاتی تقریر کا شائبہ تک نہیں تھا ورنہ پی ایس پی کی تشکیل کے حوالے سے سوچ بچار کے مرحلے کو طول دیا جاسکتا تھا۔ اس وقت ایم کیو ایم عملاً چار حصوں میں منقسم ہے ایم کیو ایم کی اصولی اور نظریاتی قیادت تو ایم کیو ایم لندن کے پاس ہے جن کو یہ اعتماد حاصل ہے کہ کراچی میں مہاجر ووٹنگ پاور ان کے پاس ہے اب یہ اعتماد کس حد تک درست ہے یہ تو الیکشن میں ہی اندازہ ہو سکے گا۔ ایم کیو ایم کا دوسرا حصہ ایم کیو ایم پاکستان ہے جس کی قیادت فاروق ستار کے پاس ہے ایم کیو ایم کی ساری پارلیمانی دولت و قوت ان کے ہاتھ میں ہے اسی لیے ان کو یہ امید ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں وہ ایم کیو ایم پاکستان کے پلیٹ فارم سے بھرپور کامیابی حاصل کر لیں گے۔ ایم کیو ایم کا تیسرا دھڑا پی ایس پی کے نام سے ہے جس میں ایم کیو ایم کے وہ کارکنان اور ایسے لوگ شامل ہیں جو ایم کیو ایم کی اصل قوت تھے یا یہ وہ لوگ تھے جن کے نام سے علاقوں میں دہشت قائم تھی یہ وہ کارکنان ہیں جن پر کئی مقدمات قائم ہیں انہوں نے تنظیم کے لیے قربانیاں بھی دی ہیں اور ہر انتخابات میں ایم کیو ایم کو کامیابی دلانے میں اصل میں ان ہی لوگوں کی کارکردگی شامل رہی ہے۔ پی ایس پی کے عہدیداروں کو یہ قوی امید ہے کہ وہ اگلے عام انتخاب میں بھرپور فتح حاصل کریں گے کہ ایم کیو ایم کو ہر انتخاب میں فتح سے ہم کنار کرنے والی اصل چابی تو ان کے پاس ہے۔ ایم کیو ایم کا چوتھا دھڑا ایم کیو ایم حقیقی ہے جس کی قیادت آفاق احمد کے پاس ہے اس کی کوئی عوامی حیثیت تو نہیں ہے لیکن کچھ کارکنان اور کچھ منتخب علاقے ان کے پاس ہیں آئندہ انتخاب میں یہ ایک پریشر گروپ کی شکل میں اپنا کوئی رول ادا کرسکتے ہیں۔
اب آئندہ انتخابات میں ان چاروں گروپوں کی کیا حکمت عملی ہو گی اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں قائم کی جاسکتی کیا چاروں گروپس متحد ہوکر مہاجر ووٹ کو بے اثر ہونے سے بچالیں گے، ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ کیا متحدہ کے دو سابق مےئر فاروق ستار اور مصطفی کمال آپس میں ہاتھ ملالیں گے اس بات کا کچھ کچھ امکان نظر آتا ہے لیکن اس میں کئی اگر کئی مگر شامل رہیں گے کہ کس کا ہاتھ اوپر رہے اور کس کا نیچے۔ ویسے مصطفی کمال کبھی کبھی یہ بیان بھی دیتے رہتے ہیں کہ ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان دونوں اندر سے ایک ہیں، ان کے خفیہ رابطے ہیں اور یہ انتخابات کے موقع پر ایک ہو جائیں گے۔ بہت سے لوگ یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انتخابات کے نزدیک ایم کیو ایم لندن کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل ہو جائے گی کراچی میں ایم کیو ایم لندن سے جذباتی وابستگی رکھنے والے کارکنان تو بڑے اعتماد سے یہ بات کہہ رہے ہیں بلکہ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ الطاف بھائی کچھ عرصے کے لیے پس منظر میں چلے جائیں، کچھ دوسرے نام سامنے آجائیں جن کی قیادت میں انتخاب لڑا جائے گا، انتخاب جیتنے کے بعد الطاف بھائی دوبارہ منظر عام پر آجائیں گے یہ ایک سادہ سی کہانی ہے جو کراچی کے بھولے بھالے کارکنان کو سنائی جارہی ہے۔



کراچی میں ایم کیو ایم بکھر رہی ہے اس خلا کو پر کرنے کے لیے قومی جماعتیں متحرک ہورہی ہیں کراچی کی ان بستیوں میں جو کبھی متحدہ کے زیر اثر ہوتی تھیں اور کسی حد تک اب بھی ہیں وہاں پر یہ قومی جماعتیں بالخصوص پی پی پی بہت فعال ہوئی ہے لیاقت آباد، ناظم آباد، گلبہار، نیو کراچی، نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد، ملیر، لانڈھی کورنگی اور شاہ فیصل کالونی جیسے علاقوں میں یو سی کی سطح تک دفاتر قائم کیے جارہے ہیں اور ایم کیو ایم کے سابقین کو شامل کیا جارہا ہے، لیاقت آباد میں ایم کیو ایم کے معروف نام ارشد کلائی کو پی پی پی کا چےئرمین بنایا گیا ہے اسی طرح ان علاقوں میں بیروزگار نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کا آسرا بھی دیا جارہا ہے۔ پی پی پی کی انتہائی کوشش ہے کہ کراچی میں وہ ایم کیو ایم کے خلا کو پر کرے چوں کہ وہ اقتدار میں بھی ہے اس لیے اس پاس دینے لیے تو بہت کچھ
ہے بہر حال لسانی اثر و رسوخ والے علاقوں میں قومی جماعتوں کا فعال ہونا اچھا شگون ہے دوسری قومی جماعت پی ٹی آئی ہے جس نے 2013کے الیکشن میں کراچی سے جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کی وجہ سے 8لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے وہ اب بھی اس زعم میں مبتلا ہے کہ ایم کیو ایم کے بعد اہل کراچی کی سیکنڈ چوائس پی ٹی آئی ہے، حالاں کہ 2013 کا سیاسی ماحول کچھ اور تھا اب پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزرچکا ہے، اور سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان نے کراچی سے ملنے والے ووٹوں کی قدر نہیں کی ان کو تو کراچی کو اپنی سیاست کا مرکز بنالینا چاہیے تھا وہ کراچی کے مسائل پر بھرپور آواز اٹھاتے آج کراچی کوڑے کرکٹ کا شہر بن چکا ہے، کے الیکٹرک ایم کیو ایم کے بعد اہل کراچی کے لیے خوف و دہشت کی علامت بن کر رہ گئی ہے کے الیکٹرک نے اہل کراچی پر جو ظلم کیے ہیں اس پر اگر عمران خان اہل کراچی کا کیس لے کر اٹھتے اور کے الیکٹرک کے خلاف بھر پور مہم چلاتے تو کچھ آنسو پونچھ لینے کا سبب بن جاتے لیکن یہاں تو سوائے جماعت اسلامی کے کسی سیاسی جماعت نے اہل کراچی کی طرف سے آواز نہیں اٹھائی لہٰذا اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔ اے این پی کے کراچی میں کچھ خاص مخصوص پاکٹس ہیں جہاں سے انہیں کوئی ایک دو سیٹس مل سکتی ہیں۔



ایم کیو ایم کے بعد کراچی میں ہمیشہ سے سیکنڈ چوائس جماعت اسلامی رہی ہے ایم کیو ایم کے وجود سے پہلے کراچی میں جماعت اسلامی لوگوں کی امیدوں کا مرکز تھی اس کی ایک پارلیمانی قوت تھی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جماعت اسلامی اہل کراچی کی ایک مضبوط آواز تھی۔ 1979 سے 1987 تک دو مرتبہ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی صاحب کراچی کے مےئر تھے انہوں نے انتہائی ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ کراچی کے شہریوں کے بلدیاتی مسائل حل کیے ہیں اور ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی دھبا بھی نہ تھا جب کہ ان کے بعد جب ایم کیو ایم کے فاروق ستار مےئر کراچی بنے تو ساڑھے تین برس بعد انہیں کرپشن کی بنیاد پر برطرف کیا گیا یہ گرفتار ہوئے ان پر مقدمہ چلتا رہا پھر عدالت میں ان کا کیس ختم ہوا تو حکومت سے ایک ڈیل کے نتیجے میں ہوا عدالت نے ان پر سے کرپشن کا الزام واپس نہیں لیا تھا۔ اہل کراچی کے سامنے یہ دونوں فرق موجود ہیں، ان کے بعد 1999 سے 2005 تک نعمت اللہ ایڈوکیٹ کراچی کے مےئر رہے انہوں نے اپنے زمانے میں جو ترقیاتی کا کیے اس کی مثال نہیں ملتی۔ پھر 2002 کے عام انتخابات میں دینی جماعتوں اتحاد متحدہ مجلس عمل کو کراچی سے پانچ نشستیں ملیں جن میں چار جماعت اسلامی کی اور ایک جے یو آئی کی تھی 2008 اور پھر 2013 کے انتخابات میں بائیکاٹ کی وجہ سے کوئی کامیابی نہ مل سکی لیکن پچھلے چار برسوں سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے مسائل پر بھرپور آواز اٹھائی ہے پہلے جماعت پر یہ الزام آتا تھا کہ یہ بین الاقوامی اشوز پر تو آواز اٹھاتی ہے لیکن مقامی مسائل سے صرف نظر کرتی ہے حالاں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا جماعت نے ہمیشہ مقامی مسائل کو بھی اہمیت دی ہے۔کے الیکٹرک کے ظلم کے خلاف جتنی قوت سے جماعت اسلامی نے آواز اٹھائی ہے دھرنے اور مظاہرے کیے ہیں وہ سب کے سامنے کی بات ہے البتہ دیگر جماعتیں کراچی کے عوام پر کے الیکٹرک ظلم کے خلاف عوام کی ہمدردی میں آواز اٹھانے کے بجائے کے الیکٹرک کی ساتھی اور ہم نوا بن کر سامنے آئی ہیں جس سے ان جماعتوں کی منافقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اب یہ امید کی جاتی ہے آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔