دیکھو تو کدھر آج رُخِ بادِ صبا ہے

483

ہندو راشٹرکا پرچار کرنے والے طرح طرح سے مسلمانوں پر وار کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں، مقصد مسلمانوں کی زندگی ضیق کرنی ہے اور ان پر یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کا اس ملک کی تاریخ اور ثقافت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ غیر ملکی حملہ آور اور غدار ہیں اور اس ملک میں ان کے لیے اس وقت تک کوئی جگہ نہیں جب تک وہ اپنا تشخص مٹا کر مکمل طور پر ہندو راشٹر کی ہندوستانیت قبول نہیں کرتے۔
ایک عرصے سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے پریوار۔ بھارتیا جنتا پارٹی اور وشوا ہندو پریشد نے مسلمانوں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارتوں کو قدیم ہندو مندر اور محل قرار دینے کی مہم شروع کی تھی۔ اسی مہم کے تحت 2015 میں چھ وکلا نے آگرہ ہائی کورٹ میں ایک درخواست پیش کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ تاج محل، پرانے زمانے میں شیو کا مندر تھا جو تیجو مہالایہ کہلاتا تھا اس لیے اب یہ مندر ہندووں کے حوالے کیا جائے تاکہ ہندو اس میں پوجاکر سکیں۔ اس درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بارہویں صدی میں راجا پرماردی دیو نے تیجو مہالایہ تعمیر کرایا تھا جو بعد میں تاج محل کہلایا جانے لگا۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ بعد ازیں یہ محل جے پور کے راجا مان سنگھ کو ورثے میں ملا تھا۔ راجا مان سنگھ کے بعد سترویں صدی میں تاج محل، راجا جے سنگھ کی تحویل میں تھا اور 1632میں اس پر شاہ جہاں نے قبضہ کر لیا تھا۔
آگرہ ہائی کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی اور ہوم سیکرٹری، وزارت ثقافت اور ہندوستان کے آثار قدیمہ کو سروے کے نوٹس جاری کر دیے تھے۔ اس کے جواب میں وزارتِ ثقافت نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ تاج محل مقبرہ ہے مندر نہیں ہے۔ آثار قدیمہ کے سروے نے 17اگست 2017 کو آگرہ ہائی کورٹ کو بتایا کہ تاج محل ایک مسلم مقبرہ ہے اور یہ کبھی مندر نہیں رہا۔
ہندو راشٹر کے پرچارک پرشوتم نگیش اوک نے 1964 میں ہندوستان کی تاریخ کو از سر نو مرتب کرنے کا ادارہ قائم کیا تھا۔ انہوں نے عجیب و غریب دعوے کر کے RSS کے کارکنوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ ان کی بیان کردہ تایخ اور دعووں کو حقیقت سمجھنے لگے۔ یہی پرشوتم نگیش اوک ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جزیرہ نما عرب، ہندو ستان کے راجا وکرما دیتا کی سلطنت کا حصہ تھا اور کعبہ، اصل میں ہندو مندر تھا۔ یہی نہیں پرشوتم اوک کے اس دعوے پر مغرب میں سخت مذاق اڑایا گیا تھا کہ عیسایت بنیادی طور پر وید مذہب ہے اور لفظ کرسچنیٹی اصل میں کرسن نیتی یا کرشنا نیتی سے ماخوذ ہے۔ پرشوتم اوک کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سیدنا عیسیؑ تیرہ اور تیس سال کی عمر میں کرشنا نیتی کا علم حاصل کرنے ہندوستان آئے تھے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ لندن کا ویسٹ منسٹر ایبے گرجا گھر بھی پہلے ہندو مندر تھا۔



پرشوتم نگیش اوک نے اپنی انداز کی تاریخ کی کئی کتابیں لکھی ہیں اور ہندوستان کی تاریخ کی غلطیوں کے بارے میں اپنی کتاب میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ قطب مینار دراصل نجوم پیمائی کا مینار تھا جو وشنو دھواج کہلاتا تھا۔ ان کے مطابق دلی کا لال قلعہ ایک ہندو حکمران نے تعمیر کرایا تھا۔ اسی کتاب میں پرشوتم اوک نے یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ ہندوستان میں قرون وسطیٰ کی تمام مساجد اور مقابر ہندوں کے مندر اور محلات تھے جن پر مسلم حکمرانوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ گوالیار میں غوث محمد کا مزار، فتح پور سیکری میں سلیم چشتی کا مقبرہ، دلی میں نظام الدین اولیا کا مزار، اور اجمیر میں معین الدین چشتی کا مقبرہ سب ہندووں کی عمارتیں تھیں جن پر مسلم فاتحین نے قبضہ کر لیا تھا۔ در اصل ایسے ہی دعوے ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری کا پیش خیمہ تھے۔
بہر حال پرشوتم اوک کے ان مضحکہ خیز دعووں کا خود سنجیدہ ہندو تاریخ دانوں نے مذاق اڑایا ہے۔ اس نوعیت کے مضحکہ خیز دعووں میں نریندر مودی نے بھی اپنے اس دعویٰ کا اضافہ کیا ہے کہ ہندووں کا دیوتا گنیش جس کی سونڈھ ہاتھی کی طرح ہے دراصل قدیم ہندوستان کی پلاسٹک سرجری کا کارنامہ ہے۔
اب RSS نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کی پرانی عمارتوں کو ہندو مندر اور محلات قرار دینے کی کوشش کا مستند تاریخ دانوں نے مذاق اڑایا ہے اور یہ کوشش کامیاب ثابت نہیں ہوئی ہے تو اب پینترا بدلا ہے اور اب تاج محل اور دوسری مغل عمارتون کو ہندو مندر اور ہندو راجاؤں کے محل قرار دینے کے بجائے ان عمارتوں کو غیر ملکیوں اور غداروں کی تعمیرات قرار دیا جارہا ہے اور ان تاریخی عمارتوں کو ہندوستان کی ثقافت اور تاریخ سے یکسر خارج کرنے کی مہم شروع کی جارہی ہے۔



اترپردیش کے نئے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ کا کہنا ہے کہ تاج محل، ہندوستان کی تہذیب کا مظہر نہیں ہے۔ پچھلے ستر سال کے دوران تاج محل کی فیس سے اربوں روپے کمانے کے بعد اب ان کا کہنا ہے کہ اسے ہندوستان کی تاریخ کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یوگی وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ اب تک ہندوستان کا دورہ کرنے والے غیرملکی صدور اور مہمانوں کو تاج محل اور دوسری مغل عمارتوں کے Replicas ہندوستان کی ثقافت کے نشان کے طور پر دیے جاتے تھے لیکن اب پہلی بار نریندر مودی نے اس طریقے کو ترک کر کے ہندوستان کا دورہ کرنے والے غیر ملکی صدور کو بھگوت گیتا اور رامائین کے تحفے دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی کے ترجمان جی وی ایل راو جو ہندوستان کے مسلم حکمرانون کے خلاف زہر اگلنے میں سب سے پیش پیش ہیں، انہوں نے الزام لگایا ہے کہ مسلم حکمرانوں کے دور میں ہندوستان سخت استیصال اور بڑے پیمانے پر عدم برداشت کا شکار رہا ہے۔ RSS کی طرف سے خاص طور پر اورنگ زیب کو نفرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور جہانگیر اور شاہ جہاں کو بھی جن کی والدہ ہندو شہزادیاں تھیں، غیر ملکی غدار قرار دیا جا رہا ہے۔
ان ریاستوں میں جہاں بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومتیں ہیں، ہندوستان کی تاریخ دوبارہ لکھی جارہی ہے، جن میں مغل حکمرانوں کو قاتل اور ہندو راجاؤں کو بڑی جنگوں میں فاتح قرار دیا جا رہا ہے۔ 1576 میں شہنشاہ اکبر نے میواڑ کے حکمران مہارانا پرتاپ کو ہلدی گھاٹی کی جنگ میں شکست دی تھی جس کے بعد مہارانا پرتاپ نے راہ فرار اختیار کی تھی اور ناکام چھاپا مار جنگ شروع کی تھی۔ راجستھان کی یونی ورسٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ تاریخ کی نئی درسی کتاب میں یہ کہا جائے گا کہ ساڑھے چار سو سال قبل اس جنگ میں رانا پرتاپ نے اکبر کو شکست دی تھی، مسلم حکمرانوں کی بات تو الگ رہی تاریخ کی نئی درسی کتاب میں گاندھی اور نہرو کا ذکر بھی خارج کر دیا گیا ہے ان کی جگہ RSS کے ویر ساورکر کو زبردست حب الوطن اور انقلابی قرار دیا گیا ہے۔
نریندر مودی کی قیادت میں جب سے بھارتیا جنتا پارٹی بر سر اقتدار آئی ہے، مسلمانوں کو سیاست سے بڑی حد تک خارج کرنے کے بعد اب انہیں تاریخ اور ثقافت سے بھی جدا کرنے کے لیے بڑے منظم طریقہ سے مہم چلائی جارہی ہے کیوں کہ RSS کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک ’’غیرملکی مسلمانوں‘‘ سے نجات حاصل نہیں کی جاتی اور تاریخ اور ثقافت پر ان کے نشانات مٹا نہیں دیے جاتے اس وقت تک ہندوستان میں ہندو راشٹر کا قیام ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ تین سال کے دوران جس بری طرح سے ترقی پسند اور سیکولر طاقتیں پسپا ہوئی ہیں اس کے پیش نظر ہندوستان کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔