اسلام آ باد(مانیٹرنگ ڈ یسک+صباح نیوز) عدالت عظمیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان کی نااہلی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ بادی النظر میں عمران خان کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات میں بھی تضاد ہے تاہم اس پر حتمی رائے فیصلے میں دی جائے گی۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ دستاویزات میں کہیں تضاد نظر نہیں آرہا،اوورلیپنگ ہوسکتی ہے لیکن تضاد کہیں نہیں ہوگا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ دیکھناچاہتے ہیں عمران خان نے جھوٹ بولا ہے یا کہیں کوئی بددیانتی کاعنصر تو نہیں،عدالت نے درخواست سے بڑھ کر چیزوں کاعمران خان سے حساب لیاہے لیکن یہ الگ بات ہے حساب دے پائے ہیں یا نہیں،کوشش ہوتی ہے سیاسی سوالات سے گریز کیا جائے کیونکہ سیاسی مقدمات میں نقصان عدالت کا ہوتا ہے، معاملہ کرپشن اوربے ایمانی کا ہوا تو مقدمات کو سنا ، جب تک ہمارا اطمینان نہ ہو انصاف کیسے کر سکتے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے عدالت کے سامنے کیاغلط بیانی کی ہے ،جس پر عدالت نے اکرم شیخ کوایک ہفتے میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت (آج)منگل تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کی۔عدالت کا کہنا ہے کہ تمام دستاویزات کا جائزہ لیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ یہ دستاویزات کیس سے متعلقہ ہیں بھی یا نہیں۔ تحریک انصاف کے سر براہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ بنی گالہ کی اراضی کے بارے میں عدالت میں جمع کرایا گیا عمران خان کا بیان حلفی یادداشت پر مبنی تھا۔انہوں نے کہا کہ تمام رقم قانونی طریقے سے بذریعہ بینک منتقل ہوئی۔نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت نے جون سے اکتوبر 2003 ء تک کا ریکارڈ نہ ہونے کی نشاندہی کی جبکہ 30 اکتوبر 2004ء سے یکم نومبر 2006 ء تک ریکارڈ نہ ہونے پر سوال اٹھایا گیا مگر اب تمام ریکارڈ مکمل ہو چکا ہے۔ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے دستاویزات تاخیر سے ملیں۔نیازی سروسز کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ پاؤنڈ قانونی چارہ جوئی کے لیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ میں سے 40 ہزار پاؤنڈ عمران خان کو ملے،نیازی سروسز کے اکاؤنٹ سے رقم عمران خان کو منتقل ہوئی۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو مزید 22ہزار یورو نیازی سروسز سے منتقل ہوئے اور عمران خان 2008 ء سے 2013ء تک عوامی عہدے پر نہیں تھے۔بینچ میں شامل جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کو رقم منتقلی کا علم تھا،جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ بیان حلفی دیتے وقت اس اکاؤنٹ کی تفصیلات سامنے نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ بعد میں سامنے آنے والی دستاویزات کو یوٹرن نہیں کہا جاسکتا۔ نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ بیان حلفی میں عمران خان نے کہا تھا جو رقم ملی اس کی تفصیلات یاد نہیں ہیں۔درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے نئی دستاویزات جمع کرانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیس کی سماعت مکمل ہوچکی ہے اور سماعت مکمل ہونے کے بعد مزید دلائل اور دستاویزات نہیں دی جاسکتیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے فیصلہ محفوظ نہیں کیا تھا۔نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے پاکستان سے باہر ایک روپیہ بھی منتقل نہیں کیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاناما کیس میں بھی غیر تصدیق شدہ دستاویزات سامنے آئی تھیں ، جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف زیادہ سے زیادہ مزید تحقیقات کا کیس بنتا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مزید تحقیقات کس قسم کی ہونی چاہییں،نعیم بخاری نے جواب میں کہا کہ عدالت تمام دستاویزات کی تصدیق کراسکتی ہے۔درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف مقدمے کی طوالت سے بہت سے سوالات اْٹھ رہے ہیں اور بہتر ہوتا کہ اس مقدمے کو بھی پاناما لیکس کے ساتھ ہی سنا جاتا،اس پر جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت چیف جسٹس نہیں تھے۔انہوں نے کہا کہ عدالت فریقین کو سن کر اور تمام حقائق کو مدنظرر رکھتے ہوئے ہی فیصلہ دے گی ۔ اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان کا ایک موقف دوسرے سے نہیں ملتا،عمران خان کے جوابات میں دیانتداری نہیں ہے،اپنی دستاویزات کی عمران خان نفی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے اکرم شیخ سے کہاکہ دستاویزات میں تضاد کی نشاندہی کریں۔اکرم شیخ نے کہاکہ دستاویزات میں تضاد پر تحریری درخواست دوں گا، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان نے جھوٹ بولاہے یانہیں،اکرم شیخ نے کہاکہ میں عدالت کے سامنے جذباتی نہیں قانون کی بات کروں گا تاہم نشاندہی کروں گاکہ عمران خان نے عدالت کے سامنے کیاغلط بیانی کی،جس پر عدالت نے اکرم شیخ کوایک ہفتے میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کردی اورکیس کی سماعت (آج)منگل تک ملتوی کردی گئی،آج جہانگیرترین نااہلی کیس کی سماعت ہوگی۔