عمران کو روک دیا، زرداری کو اجازت

289

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو لال شہباز قلندر کی درگاہ میں داخل ہونے سے اس لیے روک دیا گیا کہ ان کے ساتھ مسلح محافظ تھے۔ انتظامی نقطۂ نظر سے یہ اقدام بہت صحیح نظر آتا ہے لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ منگل 24اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے نائب چیئرمین آصف علی زرداری کو داخل ہونے سے نہیں روکا گیا جن کے آگے آگے ایک مسلح گارڈ داخل ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے آصف علی زرداری ہیں ۔ اگر عمران خان کو اس وجہ سے روکا جاسکتا ہے تو آصف زرداری کو کیوں نہیں روکا گیا؟ کیا اس لیے کہ عمران خان پیپلز پارٹی کی حریف جماعت کے سربراہ ہیں اور درگاہ میں حاضری سے پہلے انہوں نے سہون ہی میں جلسہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو کھری کھری سنائی تھیں اور آصف زرداری سندھ پر حکمران پیپلز پارٹی کے عملاً سرخیل ہیں ۔ انہیں کون روکتا خواہ وہ مسلح گارڈز کے ساتھ درگاہ میں داخل ہوں ۔ عمران خان کو روکے جانے پر پیپلز پارٹی کے وزراء نے طعنہ دیا تھا کہ ان کی حاضری قبول نہیں تھی اس لیے نہیں جاسکے۔



زرداری کی مسلح محافظوں کے ساتھ حاضری قبول کرلی گئی لیکن کس کی سفارش پر ۔ زرداری صاحب کی مسلح محافظ کے ساتھ درگاہ میں داخلے کی تصویر عام ہوگئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں خواہ عمران خان ہوں یا زرداری اور حکمران، وہ مسلح محافظوں کے بغیر گھروں نکلتے اور عوام میں آتے ہوئے کیوں ڈرتے ہیں ۔ یہی وہ عوام ہیں جو ان کو لیڈر بناتے ہیں اور ان ہی سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔ عوام مرتے ہوں تو مریں، عوامی رہنماؤں کو گزند نہیں پہنچی چاہیے۔ مسلح محافظ کے ساتھ زرداری کی درگاہ میں آمد پر اب پیپلز پارٹی کے رہنما کیا تاویل پیش کریں گے۔