شیخ رشید کی پھرتیاں

532

شیخ رشید شکوہ کناں ہیں کہ وہ کوشش کے باوجود قطر سے ایل این جی معاہدہ کی نقل حاصل نہ کرسکے، مجبوراً قطر کے لیے رخت سفر باندھا وہاں کئی اداروں کے چکر لگائے اور دھکے کھانے کے بعد اپنے مقصد میں کامران ہوئے اور اب وہ عوام کو بتائیں گے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کی حکومت ملک و قوم کو کس بے رحمی اور بے حیائی سے لوٹ رہی ہے۔ سنا ہے انہیں زاد راہ ایک نجی ٹی وی نے عطا کیا تھا ممکن ہے یہ افواہ ہو، بے پَر کی ہو مگر قابل توجہ بات یہ ہے کہ افواہ ہمیشہ بے پَر ہی کی ہوتی ہے مگر اس کی اُڑان روشنی سے بھی تیز ہوتی ہے۔
شیخ صاحب! پاک قطر معاہدے کی جو دستاویزات لائے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت نے جو گیس 6 روپے فی یونٹ کے حساب سے خریدی ہے پاکستان نے وہ گیس 11 روپے فی یونٹ خریدی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے معاہدے تو تمام حکمران کرتے رہے ہیں اور عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہی ہے، حالاں کہ ایسے معاملات میں ازخود نوٹس قومی ذمے داری بن جاتی ہے۔ بدنصیبی یہی ہے کہ ہر ادارے نے قوم کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ غلام مصطفی کھر نے ایک گفتگو کے دوران انکشاف کیا تھا کہ جب پانی اور بجلی کی وزارت ان کے پاس تھی تو بجلی خریدنے کا معاہدہ آصف علی زرداری نے کیا تھا کیوں کہ وہ بجلی کے نرخ میں کمی نہیں زیادہ سے زیادہ کمیشن چاہتے تھے سو، زرداری صاحب کی ہدایت کے مطابق خاموشی سے دستخط کردیے۔ کھر صاحب کے بقول بھارت اور بنگلا دیش نے بجلی کے نرخ میں نصف سے بھی زیادہ کمی کے بعد معاہدہ کیا۔ کھر صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ بھارتی حکام نے یہ کہہ کر معاہدہ کرنے سے انکار کردیا تھا کہ ان کی جنتا اتنی مہنگی بجلی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی، بجلی کے بجائے مٹی کا تیل ہی بہتر ہے۔



وہ بجلی کے نرخ کم سے کم کرانے میں کامیاب ہوگئے، سارے معاملات طے کرنے کے بعد بھارتی حکام نے کمیشن طلب کیا جسے بحث و تکرار کے بعد منظور کرلیا گیا۔ معاہدہ کرنے والے بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ نرخ میں کمی کرانا ان کی قومی ذمے داری ہے اور جنتا کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا کرنا ان کا فرض ہے۔ جب کہ پاکستان میں معاہدہ کرنے والوں نے کہا کہ ہمیں آپ کے نرخ پر کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ بتاؤ کمیشن کتنے فی صد دو گے اس پر بات کرو۔
مشاہدہ اور مطالعہ گواہ ہے کہ وطن عزیز کے ہر سیاست دان کے اندر ایک نواز شریف اور آصف زرداری موجود ہوتا ہے، مگر شیخ رشید کی پھرتیاں گواہی دے رہی ہیں کہ وطن عزیز کے سیاست دانوں کے اندر ایک سیف الرحمن بھی چھپا ہوتا ہے جو کسی بھی وقت متحرک اور فعال ہوسکتا ہے۔ شیخ صاحب جب تک وزارت کے ہنڈولے میں جھولتے رہے میاں نواز شریف کے گن گاتے رہے مگر یوں ہی مسلم لیگ نواز لیگ سے نکالے گئے، ہر ایک سے پوچھتے رہے، مجھے کیوں نکالا؟ مجھے کیوں نکالا؟؟۔
شیخ صاحب! کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی ایل این جی اسکینڈل میں شامل ہیں۔ بھٹو مرحوم تاشقند سے پاک بھارت معاہدے کو ایک تھیلے میں بند کرکے لائے تھے جس میں سے میاؤں! میاؤں! کی آوازیں آتی رہیں۔ شاید بلی بہت خون خوار تھی اس لیے تھیلے ہی میں بند رہی۔ شیخ صاحب بھی قطر سے ایک پٹاری لائے ہیں، کہتے ہیں اس میں شیش ناگ بند ہے جو وزیراعظم خاقان عباسی کو ڈسنے کے لیے پھنکار رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شیخ صاحب! کس حیثیت سے قطری حکام سے ایل این جی سے متعلق دستاویزات لائے ہیں؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا عدلیہ ان دستاویزات کو تسلیم کرلے گی؟ شیخ صاحب کی آمدورفت سے یوں لگتا ہے جیسے قطر کے حکام ایل این جی کی دستاویزات اٹھائے ان کے منتظر کھڑے تھے۔ وزیراعظم خاقان عباسی نے ایل این جی ڈیل کے معاملات کی تحقیقات کی اجازت دے دی ہے یا ہدایت دی ہے چند دنوں کے بعد ساری صورت حال واضح ہوجائے گی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ غلام مصطفی کے انکشاف پر شیخ صاحب خاموش کیوں رہے؟