جہانگیر ترین نااہلی کیس‘ آواز اونچی ہوئی تو وہ مطلب لیا جائیگا جو میں کہنا نہیں چاہتا‘ چیف جسٹس

446

اسلام آباد( خبرایجنسیاں +مانیٹرنگ ڈیسک ) جہانگیر ترین نااہلی کیس میں مطلوبہ دستاویزات جمع نہ کرنے پر چیف جسٹس آ ف پاکستان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ میری آواز اونچی ہوئی تو وہ مطلب لیا جائے گاجو میں کہنا نہیں چاہتا،کوشش ہے سب کو دفاع کا موقع ملے، تکنیکی نکات کو رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔منگل کو دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر سے استفسار کیا کہ شائننگ ویو کا ٹرسٹی کون ہے؟ جب کہ چیف جسٹس نے کہا کہ بیرون ملک جائداد خریدنے کا طریقہ کار سمجھا دیں، بچوں نے باہر جاکر رہنا اور پڑھنا بھی ہوتا ہے، کاروبار اچھا چل جائے، اکثر بیرون ملک سہارا بھی ڈھونڈا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج حالات کچھ ہیں، کل بدل بھی سکتے ہیں، پاکستان میں حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ اثاثوں کی دیکھ بھال اور تقسیم ٹرسٹیز کی صوابدید ہے، آف شور کمپنی ٹرسٹ کے زیراہتمام چل رہی ہے۔



چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں کے جوابات ایک آدمی نے تیار کیے جس پر وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ دونوں ایک شخص کے تحریرکردہ ہیں، جہانگیر ترین کا جواب میں نے خود لکھا ہے، الزام کے ساتھ اخباری تراشا بطور ثبوت لگایا گیا۔انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین کے بچوں کا ٹیکس ریکارڈ بھی عدالت کو فراہم کررہا ہوں، جہانگیر ترین چاہتے ہیں کہ ریکارڈ دوسرے فریق کو نہ دیا جائے، ریکارڈ جہانگیر ترین کے بچوں سے متعلق ہے جو فریق نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت جو ریکارڈ چاہے طلب کرسکتی ہے جب کہ ہر چیز شفاف اور کھلی عدالت میں ہوگی،لندن پراپرٹی پر جہانگیر ترین کا کنٹرول نہیں،اس حوالے سے مطمئن کرنا ہوگا۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ والد نے بچوں کے لیے بیرون ملک گھر بنایا، اس کا مالک والد ہے نہ بچے، یہ ساری باتیں سر کے اوپر سے گزر رہی ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا ملکیت چھپانے کے لیے باہر ٹرسٹ بنایا جاتا ہے، گوشوارے دائر کرنے کا وقت آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ میرا اثاثہ نہیں۔ کیس کی مزید سماعت آج بدھ کو ہو گی۔