ادبی خبریں

724

* نعتیہ مجموعہ ’’پاؤں چھونے کی طلب‘‘ حضورؐ سے والہانہ اظہار ہے‘ محسن اعظم ملیح آبادی

رونق حیات عہد حاضر کے ممتاز و محترم شعرا میں شامل ہیں انہوں نے ہر صنفِ سخن میں شاعری کی ہے ان کی نظموں اور غزلوں کا آہنگ بہت دل کش و دلربا ہے۔ ان کے اسلوبِ بیاں میں تازگی ہے۔ فنی اعتبار سے ان کی غزلیات گہری فکر و سنجیدہ مشاہدوں کی آئنہ دار ہیں جہاں تک غزل نگاری کا تعلق ہے تو وہ حسن و عشق کے رومان پرور مضامین باندھنے میں کمال رکھتی ہیں ان کی شاعری انسانی نفسیات‘ نازک جذبات‘ لطیف احساسات اور زندگی کے تجربات سے مصور ہے انکے یہاں عروضی اور فنی نکات کی خرابیاں بھی نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر و نقاد محسن اعظم ملیح آبادی نے ایک محفل میں کیا جس کا اہتمام الطاف احمد نے اپنی رہائش گاہ پر کیا تھا۔Akhbar-e-Adab
محسن اعظم ملیح آبادی نے مزید کہا کہ رونق حیات نعتیہ شاعری بھی کر رہے ہیں ان کی نعتوں کا مجموعہ ’’پاؤں چھونے کی طلب‘‘ حال ہی میں اشاعت پزیر ہوا ہے یہ مجموعہ کلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کے جمالیاتی اظہار سے آراستہ ہے۔ سیرت رسولؐ سے مزین اشعار خصوصی اثر انگیزی سے عبارت ہے۔ رونق حیات راسخ العقیدہ مسلمان ہیں وہ حمد و نعت کی باریکیوں سے پوری طرح آشنا ہیں وہ عبد و معبود کی حدِ فاصل عبور نہیں کرتے توحید و رسالت کی ترویج و اشاعت ان کے نعتیہ کلام کی اساس ہے انہوں نے اپنی شاعری کو فرسودہ اور پامال مضامین سے بچائے رکھا ہے ان کے نعتیہ اشعار اعداق و غلو سے مبرا ہیں انہوں نے بہت محتاط انداز میں نعتیں کہی ہیں نعتوں کے لیے لفظیات کا چناؤ اور ان کا برمحل استعمال ان کی قادرالکلامی کی شہادت ہے ان کی نعتوں کے موضوعات‘ ان کا تازہ اسلوب‘ ان کی انفرادیت کا روشن ثبوت ہے۔ زبان کی صحت ان کے کلام میں ہر مقام پر موجود ہے‘ رونق حیات اپنی گوں ناگوں شعری خوبیوں کے سبب اپنے ہم عصر شعرا میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔ اس محفل میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ رونق حیات‘ افروز رضوی‘ راقم الحروف‘ شاہد عروج‘ سعدالدین سعد‘ اجمل شاہین اور ماہ جبیں نے اپنا اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔

سینٹ پیٹرک کالج کراچی میں مشاعرہ

سینٹ پیٹرک کالج صدر کراچی کا شمار کراچی کی اہم تعلیمی درس گاہوں میں ہوتا ہے یہ کالج تعلیمی ریکارڈ کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کالج کی ہم نصابی سرگرمیاں بھی قابلِ ذکر ہیں۔ 11 اکتوبر 2017ء کو اس کالج میں پہلی بار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر جاذب قریشی نے کی۔ مسلم شمیم ایڈووکیٹ مہمان خصوصی اور پروفیسر شاہد کمال مہمان اعزازی تھے جب کہ آئرن فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ راشد نور‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ عارف پرویز نقیب‘ حمیرا راحت‘ صفدر علی انشاء‘ افتخار حیدر‘ ظفر معین‘ سحر علی‘ آرتھر برکی‘ زیب النساء زیبی‘ علی اوسط جعفری‘ ہمااعظمی اور کوثر علی بخاری نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ یہ مشاعرہ دو گھنٹے جاری رہا اور شدید گرمی کے باوجود تمام طلباء اور اسٹاف پنڈال میں موجود تھا‘ طلباء کے لیے مشاعرہ ایک نئی Activity تھی لہٰذا کبھی تو خوب زور زور سے تالیاں بجا کر داد دیتے اور کبھی آئرن فرحت انہیں کہتی تھیں کہ تالیاں بجائیں۔ جب تک طلباء کی سماعتیں جوان رہیں انہوں نے مشاعرے کا لطف اٹھایا لیکن ڈسلپن آخری وقت تک قائم تھا اس مشاعرے کے اہتمام میں یوں تو کالج کے تمام اساتذہ نے حصہ لیا تاہم ہمااعظمی کا کنٹری بیوشن سب سے زیادہ ہے کہ انہوں نے شعرا کرام کو دعوت دی اور تمام انتظامات کی نگرانی کی یہ ایک کامیاب تقریب تھی جس کا کریڈٹ اس کالج کے تمام اسٹاف کو جاتا ہے۔ پروفیسر جاذب قریشی جب اپنا کلام سنانے آئے تو پنڈال میں موجود ہر شخص نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور دیر تک تالیاں بجائیں۔ پروفیسر جاذب قریشی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ایک زمانے میں درس گاہوں میں بھی ادبی تقریبات ہوتی تھیں جن میں مشاعرہ بھی شامل تھا لیکن گزشتہ پندرہ‘ بیس سال سے تعلیمی اداروں میں مشاعروں کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے اس کالج میں مشاعرے کا اہتمام ستائش اقدام ہے جس کے لیے کالج کے پرنسپل‘ اسٹاف اور طلباء مبارک باد کے مستحق ہیں امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان و ادب اسکولوں اور کالجوں کے تعلیمی نصاب میں شامل ہے ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے اردو پڑھائی جارہی ہے تعلیمی اداروں میں رائج اردو کی کتابوں میں نثر کے ساتھ نظم کا حصہ بھی ہے جس میں غزلیں بھی شامل ہیں ان غزلوں میں اساتذہ کے کلام کے ساتھ اس زمانے کے کچھ اہم شعرا کا کلام بھی شامل ہے یہ بڑی اہم بات ہے کہ ہم اپنی نوجوبان نسل کو ادب سے جوڑے ہوئے ہیں جن اقوام میں اہل قلم کی عزت و توقیر نہیں کی جاتی وہ معاشرے تباہی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے کیوں کہ شاعر بھی اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے وہ لوگوں کو بتاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ مہمان اعزازی پروفیسر شاہد کمال نے اپنے اشعار سنانے سے قبل کہا کہ وہ سینٹ پیٹرک کالج میں طویل عرصے تک تعلیمی خدمات انجام دے چکے ہیں آج انہیں بے حد خوشی ہے کہ وہ اس مشاعرے کا حصہ ہیں اور اپنے کالج کے اساتذہ و طلباء سے مخاطب ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نصابی سرگرمیوں سے طلباء و طالبات کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ مشاعرہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ ہماری تہذیب و تمدن کا ائنہ دار ہے اس ادارے کے تحت ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں‘ مشاعرے ہر دور کی ضرورت ہے۔ کالج کے پرنسپل شمیم خورشید نے تمام شعرا کی خدمت میں گل دستے پیش کیے اور خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ میری کوشش ہوگی کہ میں ادبی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کرتا رہوں‘ میں چاہتا ہوں کہ میرے طلباء و طالبات اردو زبان و ادب سے روشناس ہوں۔ مسٹر انتھونی نے کلمات تشکر ادا کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام شعرا کے ممنون و مشکور ہیں کہ انہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیت میں سے وقت نکال کر ہماری تقریب کو رونق بخشی۔

 سلام گزار ادبی فورم کی 85 ویں نشست

 سلام گزار ادبی فورم رثائی ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہے اس ادارے کے تحت ردیف دے کر طرحی مشاعرہ منعقد کیا جاتا ہے۔ اکتوبر کی طرحی ردیف ’’گریہ‘‘ کے تحت فیروز ناطق خسرو کی صدارت میں اصغر علی سید کی رہائش گاہ پر مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹر ثروت حسین رضوی مہمان خصوصی تھے۔ قمر زیدی اور نسیم شیخ مہمانان اعزازی تھے۔ مقبول زیدی نے نظامتی فریضہ انجام دینے کے ساتھ اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ سلام گزار ادبی فورم کی شاخیں پاکستان کے ہر بڑے شہر میں قائم ہو رہی ہیں خدا کا شکر ہے کہ ہم رثائی ادب کے خدمت گاروں میں شامل ہیں ہمارا عقیدہ و ایمان ہے کہ آل رسول کی تویف و اذکار سے ایمان تازہ ہوتا ہے ذکر حسین‘ سنت رسول بھی ہے اور باعث ثواب بھی۔ کربلا کا واقعہ تاریخ اسلام میں سنہرے حروف سے لکھا گیا ہے کہ جہاں 72 جاں نثارانِ امام حسینؓ نے یزیدی لشکر کے ہاتھوں شہادت پائی کہ غاصب و جابر حکمران کی بیعت نہیں کی کربلا حق و باطل کی جنگ ہے قیامت تک اس سانحہ عظیم کی یادیں زندہ رہیں گی اور شعرا کرام حضرت امام حسینؓ کو منظوم خراج و تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ تقریب کے آغاز میں ہادی علی سیدنا نے اپنے خوب صورت ترنم کے ساتھ بارگاہ حسینی میں سلام پیش کیا۔ بعدازاں فیروز ناطق خسرو‘ نسیم شیخ‘ توقیر تقی‘ عدنان عکس‘ حنیف عابد‘ الحاج نجمی‘ سمیع نقوی‘ پرویز نقوی‘ سلمیٰ رضا‘ ایم ایم مغل‘ کشور عدیل جعفری‘ ندیم قیس‘ عقیل عباس جعفری‘ فاخر رضا‘ شہنشاہ نقوی‘ پروین حیدر‘ مقبول زیدی اور حجاب فاطمہ نے اپنا اپنا طرحی کلام سنایا۔ صاحبِ صدر فیروز خسرو نے اپنے خطاب میں کہا کہ طرحی مشاعروں سے مشقِ سخن میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ طرحی مشاعروں کا اہتمام کیا جاتا تھا بلکہ زیادہ تر طرحی مشاعرے ہوتے تھے لیکن جب سے ہم تن آسان ہوئے ہیں طرحی مشاعرے ختم ہوتے جارہے ہیں اس وقت کراچی میں دبستانِ وارثیہ جہانِ حمد و نعت اور سلام گزار ادبی فورم طرحی مشاعرے کرا رہے ہیں دوسرے ادبی انجمنوں کو بھی طرحی مشاعروں کی روایت زندہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری انسانی احساسات و جذبات کے منظوم اظہار کا نام ہے لیکن سلام و مرثیہ میں ہم واقعاتِ کربلا نظم کرتے ہیں اور پیغام کربلا کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ذکر حسین باعثِ ثواب ہے۔

اکادمی ادبیات کا مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو ہر ہفتے ایک مشاعرے کا اہتمام کرتے ہیں جس میں پہلے مذاکرہ ہوتا ہے اور دوسرے دور میں شعری نشست ہوتی ہے اسی تناظر میں انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے آفس میں مذاکرہ و مشاعرے کا اہتمام کیا اس مشاعرے میں ’’لوک ادب‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی گئی تقریب کے صدر محسن اعظم ملیح آبادی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ لوک ادب ہمارے ملک کا ادبی سرمایہ ہے ہر صوبے اور زبان میں لوک ادب تخلیق کیا گیا ہے۔ وفاقی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ سندھی ادب کے چیئرمین ڈاکٹر عنایت لغاری نے کہا کہ ادب و ثقافت میں گہرا تعلق ہے دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں تمام موجودہ تہذیبوں اور قدیم تہذیبوں میں لوک ادب پایا جاتا ہے لوک ادب میں المیہ مضامین بھی ملتے ہیں اور طربیہ مضامین بھی پائے جاتے ہیں اور یہ مضامین ہماری ذہنی اور فکری نشوونما میں مددگار ہوتے ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ لوک شاعری عوامی شاعری ہے اس میں معاشرتی واقعات و حالات نظم کیے جاتے ہیں۔ لوک ادب ذہنی ارتقا کا اعلامیہ ہے۔ تقریب میں جاوید آفتاب‘ شوکت جمال اور افروز رضوی مہمان اعزازی تھے۔ پروین حیدر مہمان خصوصی تھیں۔ قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ جن شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا ان میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ رونق حیات‘ افروز رضوی‘ جاوید آفتاب‘ شوکت جمال‘ عرفان علی عابدی‘ پروین حیدر‘ نصیر سومرو‘ شہناز رضوی‘ زینت کوثر لاکھانی‘ فہمیدہ مقبول‘ سید اوسط علی جعفری‘ ضیا شہزاد‘ نجیب عمر‘ وقار زیدی‘ عشرت حبیب‘ نشاط غوری‘ نواز علی ڈومکی‘ قمر جہاں‘ تنویر سخن‘ طاہر سلیم سوز‘ غازی بھوپالی‘ آصف علی آصف‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ عارف شیخ‘ محسن سلیم‘ اقبال غوری‘ اقبال رضوی‘ گوہر فاروقی‘ دلشاد احمد‘ پرویسر مجیب ظفر حمیدی‘ عمران ہمدانی‘ سویرا سجاد‘ محمد قادر‘ مہر جمالی‘ کاشف علی‘ تاج رانا‘ مشرف علی‘ شفیق الرحمن‘ شاہین خان گبول‘ مہتاب شاہ‘ دل نواز دل اور قادر بخش سومرو شامل ہیں۔

جہانِ حمد کا طرحی مشاعرہ

 بزمِ جہانِ حمد (پاکستان) کراچی کے زیر اہتمام شارق رشید کی رہائش گاہ پر ماہانہ طرحی مشاعرہ ہوا جس کی صدارت انیس الحق نے کی۔ جمال احمد جمال اور شوکت اللہ مہمانانِ خصوصی تھے۔ اقبال احمد خان اور حامد علی سید مہمانانِ اعزازی تھے۔ طاہر سلطانی نے نظامت کے فرایئض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم طویل عرصے سے بزم جہانِ حمد کے پلیٹ فارم سے حمدیہ مشاعرے اور نعتیہ مشاعروں کا اہتمام کر رہے ہیں کیوں کہ حمدو نعت کی ترویج و اشاعت ہماری تنظیم کے اغراض و مقاصد میں شامل ہے ہم اپنی مدد آپ کے تحت مشاعرے کراتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا انہوں نے مزید کہا کہ دورِ حاضر میں حمدیہ اور نعتیہ مجموعے تواتر کے ساتھ اشاعت پذیر ہو رہے ہیں نعتیہ ادب میں تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے نعتیہ ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کا فروغ ہو رہا ہے۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہِمانان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ شارق رشید‘ آسی سلطانی‘ نعیم انصاری‘ رفیق مغل‘ نجیب قاصر‘ محمد یوسف اسماعیل‘ انور سہوانی‘ حافظ محمد مزمل سلطانی‘ محمد زبیر سلطانی اور محمد وسیم نے طرحی کلام نذر سامعین کیا۔