معروف ادیب محمدحمید شاہدکے اعزاز میں تقریب

263
hameedفکشن نظریاتی روح سے نہیں بلکہ مزاج اور حسیات کی روح سے جنم لیتا ہے۔ ان خیالات کا اظہارناول نگار ،افسانہ نگار اور ادیب محمد حمید شاہد نے اکادمی ادبیات پاکستان کے رائٹرز کیفے اسلام آبادکے زیر اہتمام منعقدہ تقریب ’’اہل قلم سے ملیے‘‘ میں کہی۔ادیبوں اوردانشوروں نے ان کی فنی زندگی اور شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی۔محمد حمید شاہد نے کہا کہ افسانہ لکھتے ہوئے لگ بھگ ہر بار یوں لگا کہ جیسے تخلیقی عمل سے جڑنا تو زندگی کو از سرِ نو تخلیق کرناہوتا ہے۔ ایک عجب طرح کے درد سے دہکتے ہوئے الاؤ کو چیر کر پار نکلنا اور ایک اور نوع کی زندگی کا سراغ پالینا یا پھر اس سراغ جیسے سراب میں بھٹک جانا ہی کہانی لکھنے کی تاہنگ کا اسیر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے فقط لکھنااور اس کے عمل سے حظ اٹھانا کبھی اہم نہیں رہا کہ میں تو زندگی کے بھیدوں کوکھولتے چلے جانے سے اور ہر تہہ کے اترنے پر بے پناہ حیرت یا شدید صدمے کے مقابل ہوجانے کو ہی تخلیقی عمل کی عطا سمجھتا آیا ہوں، فکشن نظریاتی روح سے نہیں بلکہ مزاج اور حسیات کی روح سے جنم لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تخلیقی عمل میں خیالات کی برتری اسے ناقص کرتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو ، چیئرمین ، اکادمی ادبیات پاکستان نے کہا کہ محمد حمید شاہد کا شمار نمائندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے فکشن کے ساتھ ساتھ فکشن کی تنقید پر بھی بہت کام کیا ہے۔ ان کے افسانوں ، ناولوں اور تنقید کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمد حمید شاہد کا اسلوب بیان انفرادیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں سیاسی اونچ نیچ اور ملکی صورت حال کو بڑی خوبصورتی سے اپنے فن پاروں میں لکھا ہے۔نہوں نے کہا کہ اکادمی کے لیے مختلف منصوبوں میں ان کی مشاورت حاصل رہی ہے۔ انہوں نے اکادمی کے لیے حال ہی میں نئے لکھنے والوں کے لیے رہنما کتاب’’افسانہ کیسے لکھتے ہیں‘‘ تحریر کی جس سے نئے لکھنے والوں کو بہت مدد ملے گی۔ رائٹرز کیفے کے زیر اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان کا پروگرام ’’ میٹ اے رائٹر اوور اے کپ آف ٹی ‘‘ کے تحت محمد حمید شاہد کے ساتھ یہ تقریب اس سلسلہ کی چوبیسویں تقریب ہے اور اکادمی آئندہ بھی ادبیوں اوردانشوروں کے ساتھ اس طر ح کی ملاقات کا اہتمام کرتی رہے گی۔پروفیسر فتح محمد ملک،مسعود مفتی،ڈاکٹر احسان اکبر، کشور ناہید، محمد اظہار الحق ، پروفیسر جلیل عالی،علی اکبر عباس،حلیم قریشی،حفیظ خان،فریدہ حفیظ،وقار بن الہی، سرفراز شاہد،نسیم سحر،ضیا الدین نعیم،قیوم طاہر،علی محمد فرشی، منظر نقوی، ڈاکٹر نجیبہ عارف، افشاں عباسی، شکیل جاذب، واحد بزدار، منظور وسیریو، رحمن حفیظ، محمد علی، ارشاد احمد ناشاد، اقبال افکار اور دیگرنے صاحب شام کے فن و شخصیت اوران کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی۔