احتساب، اب کے مذاق کی گنجائش نہیں 

305

نیب نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو عدالت سے گرفتار کر لیا ہے۔ شرجیل میمن پر محکمہ اطلاعات میں پانچ ارب کی کرپشن کا الزام ہے۔ ملک میں اس وقت احتساب کا غلغلہ بلند ہے۔ نیب کے تن مردہ میں جان پڑ چکی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ایک ریٹائرڈاور دبنگ جج جسٹس جاوید اقبال نیب کے چیرمین کا منصب سنبھال چکے ہیں اور وہ احتساب کے حوالے سے دوٹوک انداز میں اپنے ارادوں اور عزائم کا اظہار کر رہے ہیں۔ شرجیل انعام کی گرفتاری کے روز ہی نیب نے پی آئی اے کے جہاز کو اونے پونے ایک اسرائیلی کمپنی کو فروخت کرنے اور ملتان میٹرو بس کے منصوبے میں بدعنوانیوں کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔
پاکستان کا گردوپیش ہی نہیں زمانہ بدل رہا ہے۔ ایک نیا عالمی منظر تشکیل پارہا ہے۔ قومیں اگلے ایک سو سال یا اس سے آگے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جیسے امریکا اور بھارت کے درمیان سو سالہ دفاعی شراکت داری کا معاہدہ۔ دنیا میں یہ موڑ اور یہ مراحل صدیوں اور دہائیوں کے بعد آتے ہیں۔ قریب قریب دوسری جنگ عظیم کے بعد یہی منظر تھا جب دنیا کی پرانی تقسیم ختم ہو رہی تھی اور وقت وحالات کی راکھ پر جہانِ نو پیدا ہورہا تھا۔ دنیا دو نئے بلاکوں میں تقسیم ہو رہی تھی ایک طرف امریکا کی قیادت میں سرمایہ دار بلاک تھا تو دوسری طرف سوویت یونین کی قیادت میں کمیونسٹ بلاک۔ پوری دنیا ان دو بلاکوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے پر مجبور تھی۔ غیر جانبدار تحریک کا ڈول تو ڈالا گیا تھا مگر یہ درحقیقت سوویت یونین کے ہمدردوں اور ہم نواؤں کا اکٹھ تھا۔ بھارت جس تحریک کا روح رواں ہو وہ غیر جانب دار ہونے کے علاوہ سب کچھ کہلا سکتی تھی کیوں کہ عملی طور پر بھارت سوویت یونین کی تھیلی کا کینگرو تھا۔ اب دنیا کو وہی منظر اور مقام درپیش ہے۔ امریکا اور اس کے ہم نوا جن میں اسرائیل، بھارت اور یورپ کا کچھ حصہ اور جاپان شامل ہیں ایک طرف کھڑے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ روس اور چین الگ مقام پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ایران، ترکی اسی جانب لڑھک رہے ہیں جلد یا بدیر سعودی عرب کے پاس بھی اسی جانب رخ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اس بلاک میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے۔



پاکستان دنیا کی تیزی سے وسعت پزیر معیشت چین کا ہمسایہ، قریبی اتحادی ہی نہیں بلکہ دنیا کی وسعتوں کی سمت چین کے لیے کھلنے والی کھڑی ہے۔ یہ تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے چین کے پاس واحد اور قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ سرد جنگ کے بدترین دنوں اور مختلف سمتوں میں سفر کرنے کے باوجود پاکستان نے چین کے لیے یہ کھڑکی کھولے رکھی اب تو منظر ہی بدل گیا ہے۔ چین اب محصور، تنہائی پسند اور اپنی دنیا میں گم ملک نہیں رہا بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے پر اپنے اقتصادی پر پھیلا چکا ہے۔ وہ ایک ملک سے زیادہ ایک عالمی تہذیب کے طور پر اپنی شناخت بنا رہا ہے۔ اس کی زبان، کھانے اور رواج ہر غالب ہونے والی قوم کی طرح دنیا میں فروغ پا رہے ہیں۔ یہ اس زمانے سے قطعی مختلف دور ہے جو پاکستان ستر برس میں گزار چکا ہے۔ تب امریکا اور مغربی ادارے پاکستان کو اسٹرٹیجک معاملات میں استعمال کرنے کے عوض یا سوویت یونین کے ساتھی بھارت پر نظر رکھنے اور اس کی دُم پر پاؤں رکھنے کے لیے نقد امداد دے کر بری الذمہ ہوتے تھے۔ انہیں اس سے غرض نہیں تھی کہ رقم کسی جیب میں چلی جاتی ہے یا جائز مقاصد کے لیے خرچ ہوتی ہے پاکستان کا کام بھی چلتا تھا اور سوویت یونین اور بھارت کی مخبری کے لیے ا مریکا کے مقاصد بھی پورے ہوتے تھے۔ اب یہ پوزیشن یکسر تبدیل ہو چکی ہے اب امریکا کے ہاں یہ حیثیت بھارت نے اختیار کر لی ہے۔
چین پاکستان کو امداد نہیں دے گا اور یہ چین کا اسٹائل بھی نہیں۔ جیسے کہ عام طور کہا جاتا ہے کہ چین مچھلی پکڑ کر نہیں دیتا مچھلی پکڑنے کا طریقہ بتاتا ہے عین ممکن ہے کہ مچھلی پکڑنے کا جال اور راڈ وغیرہ خریدنے میں کچھ مدد دے۔ چین پاکستان کو عالمی طاقت بننے کی دوڑ میں اپنے ساتھ چلانے کی کوشش کرے گا۔ چین اگر ایک طاقتور انجن کی حامل جدید گاڑی ہے تو پاکستان کا حال وقت گزیدہ اور انجر پنجر کار جیسا ہے۔ اس انجر پنجر نے اگر چین کے ساتھ نہیں تو کم ازکم اس کے قریب قریب رہ کر دوڑنا ہے اور اس کے لیے پاکستان کے نظام کو سریع الحرکت، شفاف اور واضح بنانا ناگزیر ٹھیرا ہے۔



پاکستان کا استحکام، نظام کی شفافیت چین کے لیے حددرجہ اہم ہے۔ سی پیک کی صورت میں چین نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر کے جہاں اپنا بہت کچھ داؤ پر لگارکھا ہے وہیں پاکستان میں خواہشات اور اخلاقی اقدار کے پروانے کے آگے ساکھ اور دیانت اور امانت کا چراغ سجا کر رکھ دیا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ وقت کی ایک ضرورت اور مجبوری نے ہمیں دوبارہ احتساب جیسے نعروں اور اقدامات کی طرف موڑ دیا ہے حالاں کہ یہ مجبوری کا معاملہ نہیں ہوتا قوموں کی زندگی کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ امانت اور دیانت، قومی املاک اور اثاثوں کی رکھوالی کسی قوم کے تادیر زندہ رہنے میں اہم کردار کرتی ہیں۔ یہ من حیث القوم پاکستانیوں کے لیے ایک امتحان بھی ہے کہ وہ ماضی کے طور طریقے بدل کر دنیا کی بڑی طاقت کے اعتماد پر پور ا اترتے ہیں یا اپنی روایتی کہولت اور سستی کو سینے سے لگائے قیامت کی چال چلنے والے زمانے سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ چین امریکا نہیں کہ وہ پاکستان کو قلیل المدتی مقاصد کے لیے استعمال کرکے اپنے ساتھ گھسیٹتا رہے۔ چین اور پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں اور پاکستان چین کے لیے آزاد دنیا سے آکسیجن کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس لیے بدلے ہوئے وقت کے ساتھ پاکستان کو بدلنا ہوگا۔ اس تبدیلی کا پہلا تقاضا بدعنوانی سے پاک سسٹم ہے۔ بدقسمتی سے بدعنوانی پاکستان میں ایک عمومی سماجی رویہ، مزاج اور عادت بن چکی ہے۔ عام فرد سے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں تک کوئی بھی شخص اس قباحت سے پاک نہیں۔ اس بات ماضی کی طرح احتساب کی اصطلاح اور نعرے سے مذاق کی گنجائش ہرگز نہیں اس بار ہم پیچھے رہ گئے تو زمانہ بہت آگے نکل جائے گا چین عالمی طاقت بنے گا اور بھارت اس کے مخاصمانہ تعاقب میں آگے نکل جائے گا اور ہم ان دونوں کو حسرت ویاس سے دیکھتے رہی جائیں۔