نیب کے جال میں نئے پنچھی

423

پاکستان میں جس طرف دیکھیے جس شعبے پر نظر ڈالیں بد عنوانی کی غلاظت نظر آتی ہے۔ بد عنوانی جیسے فرمان امروز و فردا بن گئی ہے۔ اگر کسی پر ہاتھ ڈالا جائے تو وہ انتقام انتقام کا شور مچادیتا ہے۔ کوئٹہ سے پیٹ بھرے افراد کے قبضے سے اربوں روپے اور وسیع جائداد برآمد ہوتی ہیں۔ یہ کام کوئی ننگا بھوکا نہیں کرتا بلکہ وہ کرتے ہیں جن کی جیبیں دولت کے بوجھ سے پھٹ رہی ہوتی ہیں۔ آصف زرداری کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ کیا تھے اور اب کیا ہیں لیکن ثابت کچھ نہیں ہوسکا۔ نواز شریف اور ان کے بیٹے اور داماد پر ہاتھ ڈالا گیا تو سیاسی انتقام کا شور مچ گیا۔ سابق پراپرٹی ایجنٹ شرجیل میمن سندھ کے وزیر اطلاعات کے منصب پر پہنچ گئے اور اب اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں پکڑ میں آئے ہیں تو وہ بھی شور مچارہے ہیں۔ پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے کا وزارت کے منصب تک پہنچنا قابل اعتراض نہیں ہے لیکن بیرون ملک اربوں کے اثاثے بنالینے کی تحقیقات تو ہونی چاہیے۔ سکھر کے میٹر ریڈر جناب خورشید شاہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں لیکن ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی کارکردگی خواہ کیسی ہی ہو لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے طویل عرصے تک وزیراعلیٰ رہنے کے باوجود کرپشن نہیں کی اور جتنی زمین پہلے تھی اسی پر گزارہ ہے۔ اس دعوے کی تردید کسی نے نہیں کی جب کہ آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے ڈنکے پٹ رہے ہیں۔ ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل ناصر عباس کوئی مفلوک الحال شخص تو نہیں کہ مجبوراً حرام کھانے پر اتر آئے ہوں۔



بطور ڈائریکٹر جنرل ان کی جائز آمدنی کچھ کم تو نہ تھی کہ جہنم کی آگ سے پیٹ بھرنے لگے۔ ایک غریب آدمی اگر چوری کرنے پر مجبور ہوجائے تو قابل معافی ہوسکتا ہے مگر بڑے بڑے بیوروکریٹ ہرگز کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اور اب جسارت کے رپورٹر کی خبر ہے کہ سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی گرفتاری کے بعد صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو اور ان کے بھائی بھی نیب کی گرفت میں آنے والے ہیں۔ ان پر گلستان جوہر میں 5 تجارتی پلاٹوں کی جعلی نیلامی کرکے کے ڈی اے کو ایک ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ جو پلاٹ بظاہر نیلام کیے گئے ان کا کوئی ذکر اشتہار میں نہیں ہوا۔ 75 ہزار روپے گز مالیت کے پلاٹ محض 33 ہزار فی گز میں نیلام کردیے گئے۔ نیلامی تو ہوئی نہیں لیکن یہ پلاٹ جام خان شورو کے بھائی کے نام الاٹ کردیے گئے۔ کے ڈی اے کے نئے ڈائریکٹر جنرل سمیع صدیقی نے اس ضمن میں تحقیقات میں پورے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ جام خان شورو تحقیقات شروع ہونے پر ان پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کے لیے کے ڈی اے حکام پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس عرصے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور اس کا شعبہ ماسٹر پلان کہاں سویا ہوا تھا۔ لیکن وہ ہی کیا وزیراعلیٰ سندھ کہاں تھے یا وہ بھی ایسے معاملات میں شریک ہوتے ہیں اور حصہ وصول کرتے ہیں۔ زمینوں پر قبضے بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہوتے۔ بڑا حصہ انہی کا ہوتا ہے۔ عمران خان تو کھل کر نام لیتے ہیں لیکن ثبوت کہاں ہے؟