جدید طبی تحقیق مسلسل بیٹھے رہنا کئی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، ماہرین

269

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جو دن کا زیادہ تر وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ ان کے کئی طرح کے امراض میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ برطانیہ میں کی گئی تحقیق کے مطابق دن کا زیا دہ تر حصہ کر سی پر بیٹھ کر گزارنا کینسر ،دل کے امراض اور ہائی بلڈ پر یشر جیسی بیماریوں کا با عث بن سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل بیٹھے رہنے کی وجہ سے جسم میں کولیسٹر ول اور شکر کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ذیا بیطس کا بھی سبب بن رہا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ روزہ مرہ زندگی میں ورزش اور چلنے پھرنے کی سرگرمیوں کو شامل کیا جائے۔

ماں کا دودھ اورتوجہ، ذہین بچہ اورکامیابی کی ضمانت

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے لیے والدین کی توجہ اور کم ازکم 6 ماہ تک ماں کا دودھ انہیں مستقبل میں ذہین اور کامیاب بناسکتے ہیں۔ ’’ماں کی گود، بچے کی اوّلین تربیت گاہ ہے،‘‘ پاکستان اور جنوبی افریقا کے ماہرین کی حالیہ تحقیق سے اس پرانے مقولے کی سچائی ایک بار پھر ثابت ہوئی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر عائشہ یوسف زئی کی قیادت میں پاکستانی دیہاتوں میں مقیم 1,302 غریب بچوں پر ایک مطالعہ کیا گیا، جس سے پتا چلا کہ اگر مائیں اپنے 2 سالہ بچوں کے 4 سال کی عمر میں پہنچنے تک ان پر توجہ رکھیں تو بڑی عمر میں یہ بچے زیادہ قابل اور کامیاب ثابت ہوسکتے ہیں۔ مطالعے میں شریک بچوں کی ماؤں کو تربیت دی گئی کہ کھیل کود اور بات چیت کے دوران بچوں کا مشاہدہ کیسے کیا جائے، اور ان کی مختلف حرکات و سکنات پر کس طرح ردِعمل کا اظہار کیا جائے۔
والدین اور بچوں میں بہتر رابطے سے یہ فائدہ ہوا کہ 4 سال کی عمر تک پہنچنے پر بچوں میں اکتساب (سیکھنے کی صلاحیت)، ذہانت، سماجی کردار، توجہ، یادداشت، خود پر قابو اور مزاج میں لچک جیسی خصوصیات بھی واضح طور پر بہتر ہوئیں۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ بچوں کا خیال رکھنے اور ان کی تربیت کے معاملے میں والدین ہی زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔ اس مطالعے کے نتائج ’’دی لینسٹ گلوبل ہیلتھ‘‘ میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔ ایک اور مطالعے میں، جو یونیورسٹی آف گلاسکو کی جانب سے جنوبی افریقا کے بچوں پر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو صرف 6 ماہ تک دودھ پلائیں تو وہ زیادہ فرمانبردار، سمجھدار اور ذہین ہوتے ہیں۔ اس مطالعہ کے نتائج آن لائن تحقیقی جریدے ’’پبلک لائبریری آف سائنس، میڈیسن‘‘ چند روز پہلے شائع ہوئے ہیں۔ اخلاقی اور مذہبی نقطہ نگاہ سے شاید ان مطالعات میں کوئی نئی بات نہ ہو؛ مگر ان سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا ہے کہ مذہب کی اخلاقی تعلیمات، دنیاوی اعتبار سے بھی ہمارے لیے بے حد مفید ہیں۔

معاف کرنے سے جسمانی اور ذہنی صحت پر مثبت اثرات

ایک نئی تحقیق کے مطابق خود کو اوردوسروں کو معاف کرنے سے جسمانی اور ذہنی صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسے جانچنے کے لیے ماہرین نفسیات نے 148 نوجوان مرد وخواتین کو سوالنامے بھرنے کو دیئے جن میں ان کو زندگی بھر رہنے والا ذہنی تناؤ، معاف کرنے کی عادت اوران کی ذہنی وجسمانی صحت کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ اس میں ماہرین نے کسی شخص کو پوری زندگی لاحق ہونے والے ذہنی تناؤ اور معاف کرنے کی عادت اور معاف نہ کرنے والے افراد کے رویے اور ان کی ذہنی و جسمانی صحت کا بھی جائزہ لیا۔ تحقیق میں 2 گروہ سامنے آئے جو لوگ دوسروں کو معاف نہیں کرتے تھے ان میں ذہنی تناؤ اور جسمانی امراض زیادہ دیکھے گئے جب کہ خود اپنے اور لوگوں کو معاف کرنے والے افراد کی دماغی، نفسیاتی اور جسمانی کیفیت دیگر کے مقابلے میں بہت اچھی تھی۔ ماہرین کے مطابق جو لوگ دوسروں کو معاف کرتے رہے ان میں ذہنی تناؤ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ معاف کرنے پر قدرت نہیں رکھتے تو اس کا دباؤ ناقابل گمان انداز میں اثر انداز ہوتا ہے اور اس سے فرار کا کوئی راستہ بھی نہیں ہوتا۔ماہرین کے مطابق اگرچہ اس کی وجہ بیان کرنا مشکل ہے لیکن شاید معاف کردینے سے ذہن میں بار بار اٹھنے والا جذبہ انتقام انسان کو مسلسل پریشان کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے نوٹ کیا کہ معاف کرنے کے بعد لوگ میں اپنے ذہنی تناؤ کو بہتر انداز میں دور کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ معافی اور درگزر سے دباؤ اور ذہنی امراض صفر ہوجاتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ انسان معاف کرنے کی عادت کو اپنا شعار بنائے۔