تہذیب و شائستگی کا فقدان

266

تحمل، برداشت، تہذیب و شائستگی بڑی تیزی سے قصۂ پارینہ ہوتے جارہے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہ طبقہ ان خصوصیات سے محروم ہو رہا ہے جس کو عوام کے لیے نمونہ بننا چاہیے تھا، وہ لوگ جنہیں قانون کا پاسبان ہونا چاہیے تھا، لاقانونیت پر اترے ہوئے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے کسی افسر کی پتلون سے موٹر سائیکل چھو کر گزر جائے تو سر عام موٹر سائیکل سوار کی پٹائی کردی جاتی ہے۔ کسی اور بڑے افسر کی گاڑی کو ایک عام آدمی اوور ٹیک کردے تو سیدھا تھانے میں پہنچ جاتا ہے خواہ وہ ڈی پی او سے زیادہ معزز ہو۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بلکہ شرمناک واقعہ تو اس جمعرات کو ملتان میں بڑی روحانی شخصیت شیخ بہاء الحق زکریاکے مزار پر پیش آیا۔ اصل جھگڑا تو دو بھائیوں شاہ محمود قریشی اور مرید قریشی میں ہے اور دونوں ہی سجادگی کے دعویدار ہیں۔ جمعرات کو مریدوں کے اجتماع میں درگاہ کو غسل دینے پر جھگڑا ہوگیا کہ کون غسل دے۔ اس اثنا میں صدیق نامی ایک شخص مرید حسین کے سامنے سے گزر گیا جس پر حضرت صاحب آپے سے باہر ہوگئے اور اس پر تھپڑوں کی برسات کردی۔ وہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا رہا۔



اپنے بھائی محمود قریشی کا غصہ ایک مرید پر اتارا۔ مرید قریشی کا کہنا تھا کہ انہوں نے سجادہ نشینی اس لیے تو محمود قریشی کے حوالے نہیں کی تھی کہ وہ عمران خان کے نام پر یہاں سیاست کریں لیکن خود وہ آصف زرداری کی وکالت کرتے رہے۔ دونوں بھائی جو چاہے کریں لیکن انہوں نے اپنے مریدوں کو کیا پیغام دیا۔ کیا یہ کہ کوئی پیر صاحب کے سامنے آجائے تو اس کی پٹائی کردی جائے اور بتایا جائے کہ سب انسان برابر نہیں ، پیر صاحب کے سامنے عام آدمی اچھوت ہے۔ ایسی بزرگی جعلی ہوتی ہے جس میں انسان کا احترام نہ ہو۔ شیخ بہاء الحق کے کردار اور فرمودات ہی پر توجہ کی ہوتی جو سنی العقیدہ تھے۔ پولیس افسران اپنی افسری کے زعم میں انسان کی تذلیل کریں تو یہ ان کی فطرت اور تربیت کا حصہ ہے کہ اس طرح عوام پر رعب قائم رہتا ہے لیکن ایک بزرگ شخصیت سے وابستہ اور روحانی پیشوائی کا دعویٰ کرنے والوں کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔ ہمارے سیاست دان جیسی زبان استعمال کررہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔