منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹیاں غیر فعال ہوچکی ہیں

135

فیصل آباد (وقائع نگار خصوصی) جماعت اسلامی کے ضلعی امیر سردار ظفرحسین خان ایڈووکیٹ نے دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں پاکستانیوں کی ساڑھے 8کھرب روپے کی سرمایہ کاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن کے تحت دبئی رئیل اسٹیٹ میں اتنی بڑی سرمایہ کاری ہوئی۔ عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لے کربڑے مگرمچھوں کے گرد گھیراتنگ کرتے ہوئے انہیں ملک کے آئین وقانون کا پابند بنائے اور پاکستانی قانون میں موجود سقم دورکرتے ہوئے منی لانڈرنگ کے گھناؤنے کاروبار کا قلع قمع کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور یہاں کے عوام کی اکثریت دوڈالر یومیہ سے کم کماتی ہے۔95فیصد آبادی پر محض 5فیصد اشرافیہ کا طبقہ برسراقتدار ہے۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان تفریق پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔غریب عوام ایک طرف مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں تو دوسری جانب رہی سہی کسر جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی عوام دشمن پالیسیوں نے پوری کردی ہے۔ انہوں نے کہاکہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے ماضی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹیاں عملاً غیر فعال ہوچکی ہیں۔عوام کے خون پسینے کی کمائی دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر بیرون ممالک سرمایہ کاری کرنے والے محب وطن نہیں ہیں۔پانامالیکس میں شامل دیگر 436 پاکستانیوں اور اسی طرح دبئی لیکس، سوئس اکاؤنٹس رکھنے والوں کا بھی کڑااحتساب ہونا چاہیے۔ احتساب سب کاہونا چاہیے اور احتسابی نظام کو شفاف بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ناانصافی اور بدعنوانی پر مشتمل فرسودہ نظام ملکی ترقی وخوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کیاجائے۔اسلام کے معاشی نظام کو اختیار کرکے ہی ہم ملکی معیشت کو سہارادے سکتے ہیں۔حکمرانوں نے اپنے دوراقتدار میں قرضوں کے پہاڑ کھڑے کردیے ہیں۔