علم دین کیوں ضروری ہے؟

1554

تحریر ؛ ڈاکٹر محمد واسع طفر

یوں تو علم دین ہر مسلمان کے لیے بلکہ ہر انسان کے لیے ضروری ہے کیوں کہ عقائد واعمال کی درستی کا انحصار علم کے اوپر ہے جس پر دنیا و آخرت کی حتمی کامیابی کا دارومدار ہے لیکن کئی وجوہ کی بنا پر راقم کا خیال یہ ہے کہ عصری تعلیم سے وابستہ افراد کے لیے علم دین کی فکر کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اس کی سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ عصری تعلیمی اداروں میں جس فلسفہ حیات کی تعلیم و تبلیغ کی جارہی ہے، اس کی بنیاد ہی مادیت پرستی (Materialism)، عقل پرستی (Rationalism)، آزاد خیالی (Heterodoxy/Nonconformism)، نفس پرستی (Epicurism)، مذہب بیزاری (Irreligiousness) اور اللہ اور اس کے رسولوں کے احکامات سے بغاوت پر ہے جس کا مقابلہ کرنے اور دین پر جمے رہنے کے لیے علم دین کا ہونا اشد ضروری ہے۔ بصورت دیگر مغربی تہذیب (Culture Western) اور طرز معاشرت سے مرعوبیت اور اپنے مذہبی و تہذیبی ورثے کے تئیں احساس کمتری کا شکار ہوجانا، دل ودماغ سے دین کی عظمت کافرو ہوجانا اور اسلام کے بنیادی عقائد اور بہت سے احکام کے سلسلے میں شکوک و شبہات اور تذبذب کا شکار ہوجانا، عصری تعلیم کے لازمی ثمرات میں سے ہے۔ علاوہ از یں عصری تعلیم کا حتمی مقصد چونکہ اقتصادی ترقی، آشائش بخش زندگی کا حصول اور عیش کوشی ہی بن کر رہ گیا ہے اس لیے عصری تعلیمی اداروں کے فارغین کے اندر مال و دولت کی حرص و ہوس کا پیدا ہوجانا اور اس کے نتیجے میں حلال وحرام کی تمیز کا کھودینا عام طور پر مشاہدے میں ہے، جس کی وجہ سے انسانی قدریں بھی پامال ہورہی ہیں۔ عصری علوم کے لیے اگر کانونٹ (Convent) اور مشنری (Missionary) اداروں کا سہارا لیا گیا تو معاملہ کفر و الحاد تک بھی پہنچ جائے تو کچھ مستبعد نہیں۔ ان باتوں کا مطلب قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ عصری علوم کے اندر یہ خرابیاں ذاتی و خلقی طور پر (inherently) موجود ہیں بلکہ ان میں بہت سے ایسے علوم ہیں جو انسانیت کے لیے بہت ہی نفع بخش ہیں لیکن انہیں چونکہ مغربی افکار اور مغربی تہذیب کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے اس لیے مذکورہ نتائج سامنے آجاتے ہیں۔ یہ اسلام ہی ہے جو ایک انسان کو مادیت پرستی اور الحاد سے ہٹاکر خدا پرستی کی طرف لے جاتا ہے، عقل کو وحی الٰہی کے تابع کرنا اور نفس کی بندگی چھوڑ کر اللہ کی بندگی کرنا سکھاتا ہے اور اسے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا پابند بناتا ہے۔ لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہے جب اسے اسلامی تعلیمات سے نہ صرف یہ کہ روشناش کرایا جائے بلکہ اس کی تعلیم و تربیت اسلامی اقدار کے مطابق کی جائے۔ ہمارے معاشرے میں تو ایک عجیب چلن ہوگیا ہے کہ بچہ تین سال کا ہوا نہیں کہ اسے کسی کانونٹ یا مشنری اسکول میں ڈال دیتے ہیں جہاں وہ اپنے دینی و ثقافتی ورثے سے بالکل کٹ جاتا ہے اور خالی ذہن پر مغربیت اور کفریہ افکار بہ آسانی نقش کردیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں رسول پاکؐ کا ایک امتی جس کی صلاحیتوں کا استعمال دین کا دفاع کرنے اور اسلامی اقدار کی احیا وبقا کے لیے ہونا چاہیے تھا، اپنی صلاحیتوں کا استعمال دینی وشرعی اقدار کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے کرتا ہے۔ علما کو تاریک خیال اور خود کو روشن خیال تصور کرتا ہے اور دشمنان دین کو تالیاں پیٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح دنیا بنانے کی فکر میں والدین خود ہی اپنے بچے کی آخرت کو داؤ پر لگادیتے ہیں۔ جو لوگ دیندار تصور کیے جاتے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کے لیے قرآن کی ناظرہ خوانی اور چند دعاؤں کو حفظ کرادینے سے زیادہ کی فکر نہیں کرتے، جس سے ان کے عقائد وافکار پر کوئی معنی خیز فرق نہیں پڑتا جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان کے دل ودماغ میں اسلامی عقائد کو راسخ کیا جاتا، دین کی عظمت ان کے دلوں میں بٹھائی جاتی، اسلام کی بنیادی تعلیمات سے اسے روشناش کیا جاتا اور ان کے اندر داعیانہ صفات پیدا کی جاتی تاکہ زمانے کی تیز و تند ہواؤں کا مقابلہ کرسکتے لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔
عصری تعلیم سے وابستہ مسلمانوں کے لیے علم دین کی ایک گونہ زیادہ فکر کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا اختلاط زمانہ طالب علمی سے لیکر عملی زندگی تک مختلف شعبہ حیات میں غیروں سے ہوتا ہے۔ مدرسوں کے فارغین کا واسطہ غیروں سے نہیں کے برابر پڑتا ہے کیوں کہ عام طور پر وہ لوگ مکاتب، مدارس، مساجد اور خانقاہوں تک ہی محدود رہتے ہیں، اس لیے ان کی زندگی میں جو دین ہے وہ غیروں کے سامنے نہیں جاتا۔ اس کے برعکس عصری اداروں کے فارغین کی پوری زندگی غیروں کے نگاہ میں ہوتی ہے اور اسلام کے بارے میں جو تصور وہ قائم کرتے ہیں وہ عصری تعلیم کے حامل مسلمانوں کی زندگی کو دیکھ کر ہی کرتے ہیں اور چونکہ ان کی زندگی میں دین نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگ اسلام سے متاثر تو کیا ہوتے الٹا بدظن ہوجاتے ہیں۔ تجربے اور مشاہدے میں یہ بھی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم نے کبھی کوئی سوال اسلام کے بارے میں اپنے مسلمان ساتھی سے کردیا تو اس بے چارے کے پاس اتنا علم بھی نہیں ہوتا کہ اس کا تشفی بخش جواب دے سکے، اس لیے یا تو وہ خاموش رہ جاتا ہے یا الٹی سیدھی باتیں بناکر اسے مزید بدظن کردیتا ہے۔ اس طرح غیروں کے نزدیک اسلام کا غلط تصور قائم کرنے کے ذمے دار عام طور پر عصری اداروں کے فارغ مسلمان ہی ہوتے ہیں نہ کہ مدرسوں کے فارغ علما الّا یہ کہ ان کے بیانات یا ان کی کارکردگی میڈیا کے ذریعے غیرمسلموں تک پہنچیں۔ اس لیے بھی بہت ضرورت اس بات کی ہے کہ عصری تعلیم سے وابستہ مسلم نوجوانوں کے لیے علم دین کی زیادہ سے زیادہ فکر کی جائے۔
تیسرا سبب جس کی وجہ سے عصری تعلیم سے وابستہ مسلمانوں کے لیے علم دین کی زیادہ فکر کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے یہ ہے کہ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آج کے دور میں تمام شعبہ حیات میں مکمل اسلامی اقدار کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام ایک فرسودہ نظام حیات ہے جو اس دور کے لیے پریکٹیکل اور موزوں نہیں۔ اس طرح کی باتیں صرف غیر مسلم ہی نہیں کہتے بلکہ ایمان کی کمزوری اور اپنی تہذیب کے تئیں احساس کمتری کے شکار کچھ مسلمان بھی کہتے سنے جاتے ہیں جبکہ یہ سراسر غلط ہے۔ اسلام ایک آفاقی نظام حیات ہے اور اللہ رب العزت نے اس کی تکمیل کرکے اور انبیا کا سلسلہ موقوف کرکے تمام عالم کے انسانوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ یہی وہ نظام حیات ہے جو رہتی دنیا تک کے لیے موزوں اور کارآمد ہے اور تم سب کی دنیا وآخرت کی کامیابی اسی نظام سے وابستہ ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ دنیا کے اندر عدل و انصاف اور امن وسکون صرف اور صرف اسلام ہی لاسکتا ہے اور اسلام ہی انسانیت کے جملہ مسائل کا حل دے سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ اسلام اپنی پوری اسپرٹ کے ساتھ ہم سب کی زندگیوں میں موجود ہو، صرف دعوائے مسلمانی نہ ہو۔ یہ بات تو تجربے سے بھی ثابت ہوچکی ہے کہ اسلام کے مقابلے میں جتنے بھی فلسفہ حیات پیش کیے گئے سب کے سب سیاسی، سماجی اور اقتصادی محاذ پر بالکل ناکام ثابت ہوئے۔ لیکن ہماری بدقسمتی بھی یہ ہے کہ موجودہ دور میں ہم کوئی خطہ ارض نمونہ کے طور پر پیش نہیں کرسکتے جہاں اسلامی نظام پورے طور پر نافذ ہو۔ اس لیے اغیار کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ اسلامی معاشرت اور اسلامی اقدار کی باتیں محض کتابی باتیں ہیں جس کا حقیقت سے دور کا تعلق نہیں؟ اس لیے دور حاضر کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ عملاً اس بات کو ثابت کریں کہ اسلام ایک پریکٹیکل مذہب ہے، اس دور میں بھی اس کی تعلیمات پر چلنا ممکن ہے اور آج بھی اس کی اتنی ہی معنویت (relevance) ہے جتنی کہ رسول اللہ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں تھی۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر مسلمان خواہ وہ جس شعبے میں ہو خود کو اس شعبے میں رسول اللہ کے دین کا ایک نمائندہ تصور کرے اور اول درجہ میں اپنی زندگی میں اسلام کو نافذ کرکے دوسروں کے لیے عملی نمونہ بنے تاکہ دنیا والے یہ دیکھیں کہ ایک ایمان والا ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، ایڈووکیٹ، تاجر، منتظم اور سماجی کارکن وغیرہ کیسا ہوتا ہے؟
مذکورہ وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد ایک ہوشمند مسلمان یہ سمجھ سکتا ہے کہ عصری تعلیم سے وابستہ افراد کی اسلام سے عدم واقفیت، بے علمی اور بدعملی کے نتائج کتنے سنگین نوعیت کے ہیں اور انسانی معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟ لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ اس کی طرف نہ کسی نام نہاد دانشور کا خیال جاتا ہے نہ کسی تاریک خیال تصور کیے جانے والے مولوی صاحب کا، الّاماشاء اللہ بلکہ جسے دیکھو مدرسوں کے نصاب تعلیم کی اصلاح اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی فکر میں پڑا ہے۔ کسی دانشور کی زبان سے حرف غلط کی طرح بھی یہ نہیں نکلتا کہ عصری تعلیمی اداروں میں دین اور دینی تعلیم کو داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے دنیا کی محدود زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور آخرت کی لامحدود زندگی کو بالکل بھلارکھا ہے جب کہ دنیوی زندگی کی اہمیت صرف اس لیے ہے کہ اس میں آخرت کی تیاری کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے اور عقلمند انسان وہ ہے جو اس موقع کا صحیح استعمال کرلے۔ یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا کہ بندہ مدارس کے نصاب تعلیم اور طرز تعلیم میں اصلاح اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی فکر کا مخالف نہیں ہے بلکہ صرف اس بات کا داعی ہے کہ جس درجے میں اس کی ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ ضرورت عصری اداروں کو اسلامائز کرنے کی ہے۔