خدمت خلق کا وسیع تر معاشی تناظر

358

تحریر : ڈاکٹر انیس احمد

تعلیم کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور انقلاب کے عمل میں قراان کریم، اللہ کے بندوں کی معاشی، معاشرتی، سیاسی، ثقافتی ضروریات کو پورا کرنا بھی ایک فرض قرار دیتا ہے۔ جس طرح انسانوں پر اللہ کا حق ہے کہ رب العالمین کو وحدہٗ لا شریک مانتے ہوئے اپنا سر اطاعت اس کے سامنے جھکا دیا جائے، اسی طرح اللہ کے بندوں کا حق یہ ہے کہ ہر ضرورت مند، مسکین، فقیر، غریب کی اس حد تک امداد ہو جائے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ یہی زکوٰۃ کا فلسفہ ہے اور اسی بنا پر صدقات ہوں یا انفاق، ان کے بارے میں فرما دیا گیا کہ جو کچھ ایک فرد کی اپنی ضروریات سے زائد ہو، وہ اسے اللہ کی خوشنودی کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کردے، تاکہ اس مال کے بدلے اسے 70 گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر آخرت میں مل جائے۔اسلام خدمت خلق اور حقوق العباد کو ایک وسیع تر معاشرتی تناظر میں دیکھتا ہے۔ خصوصاً اسلامی تحریکات، بنیادی دعوتی مقصد کے حصول کے لیے اس پہلو کو اپنی سرگرمیوں میں خصوصی ترجیحی مقام دیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی طرف توجہ کی جائے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ’الخدمت‘ کے زیر انتظام شفا خانے اور طبی مراکز ملک کے بعض حصوں میں خدمتِ خلق کے لیے موجود ہیں۔ یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کو مریضوں کی فکری اور روحانی صحت کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے؟ ملک گیر منصوبہ بندی کے ذریعے ہر مریض کے احوال کا تجزیہ اور حاصل شدہ معلومات کی بنا پر اس تک دعوتی معلومات پہنچانے کے لیے کاوشوں کا میدان کھلا ہے؟ یہی شکل تعلیم گاہوں میں اختیار کی جانی چاہیے، کہ والدین کے ساتھ کس درجے کا رابطہ رکھا گیا ہے؟ تعلیم اور خدمت خلق دراصل دعوت کے وسیلے ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف اللہ کے بندوں کی جسمانی صحت ہے بلکہ ان کی اخلاقی و روحانی ترقی اور فکری اصلاح بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے۔
طبی سہولیات مختلف شکلوں میں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ بہترین شکل تو مفت طبی امداد کے مراکز کا قیام ہے۔ تاہم، کام کے آغاز کے لیے ایسے علاقوں میں جہاں دور دور تک ہسپتال کا وجود نہیں ہے، مقامی افراد سے مشورہ کر کے بآسانی انتظام کیا جا سکتا ہے کہ کوئی صاحبِ خیر اپنے گھر کا کوئی ایک کمرہ جس کا دروازہ باہر کھلتا ہو، اس میں طبی معائنے کی میز رکھنے اور طبیب کے بیٹھنے کی جگہ نکل سکتی ہو، رضاکارانہ طور پر استعمال کر نے کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس طرح بغیر کسی مالی بوجھ کے جگہ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی ایک دو مستند ڈاکٹروں سے رضاکارانہ طور پر ہفتے میں ایک یا دو دن کا وقت مانگا جا سکتا ہے۔ علاقے کے میڈیکل اسٹوروں سے بات کی جاسکتی ہے۔ ایسے افراد جو قیمتی ادویات نہیں خرید سکتے، خصوصی رعایت کرکے اور بعض ادویات اس طبی مرکز کو عطیے کے طور پر بھی دینے کی تدبیر کریں۔ یہ سارا کام قیاسی نہیں ہے بلکہ ذاتی تجربے پر مبنی ہے۔ تعلیم کے میدان میں گھر، اسکول اور بیٹھک اسکول کا تجربہ بھی اس سلسلے میں مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔
طبی امدا د کے لیے سوزوکی کیری میں ایک پورا سفری شفاخانہ بنایا جا سکتا ہے، جو مقررہ دنوں میں کم آمدنی والوں کی بستیوں میں جا کر دو یا تین گھنٹے صرف کرے اور خصوصاً بچوں میں امراض کے تدارک کے لیے عوام کو تعلیم و تربیت دے اور ساتھ ہی بچوں کے مفت معائنے کے بعد انھیں ادویات بھی تجویز کرے۔ ایسے معاملات، جن میں علاج کے لیے ہسپتا ل میں داخلہ ضروری ہو، انھیں کسی قریب کے ہسپتال تک پہنچایا جائے اور ادویات کے حصول میں ان کی امداد کی جائے۔
ملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم پانے والے طلبہ وطالبات کو رضاکارانہ طور پر الگ الگ وفود کی شکل میں قریبی ہسپتالوں کا دورہ کرایا جائے اور طلبہ مردوں کے وارڈ میں اور طالبات خواتین کے وارڈ میں جا کر ان کی عیادت کریں اور انھیں کوئی تحفہ دیں، چاہے وہ کوئی پھل یا ایک پھول ہی کیوں نہ ہو۔ اس معمولی عملِ خیر کے نتیجے میں طلبہ وطالبات کو زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ جب وہ اپنی جیب سے پھل خرید کر مریضوں میں تقسیم کریں گے تو جذبۂ انفاق پیدا ہوگا اور باہمی اخوت کو تقویت ملے گی۔ اس پوری مشق کا مقصد طلبہ اور طالبات کو عملی دعوت سے روشناس کرانا اور خدمتِ خلق کے ذریعے متحرک کرنا ہے۔ تعلیم بالغاں بھی کرنے کا ایک اہم کام ہے۔ مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو رضاکارانہ طور پر طلبہ کے ذریعے خصوصاً گرمیوں کی تعطیلات میں تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں۔
ملک میں معاشی عدم استحکام نے ہر شخص کو کرب ناک معاشی دوڑمیں لگا دیا ہے۔ معاشی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک ایسے اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے جو چھوٹے کاروباروں کے لیے غربت اور بے روزگاری میں کمی لاسکیں، اور جو لوگ اس طرح ان کے رابطے میں آئیں، ان کی فکری تربیت کے ذریعے تحریک کی قوت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔