بلوچستان پسماندہ نہیں۔ قیادت سے محروم

223

آخری حصہ
تین روز میں گورنر، وزیراعلیٰ، وزیر داخلہ، وفاقی وزیر میر حاصل بزنجو اور وزیر سیفران جنرل عبدالقادر سے گفتگو ہوئی جو بڑی دلچسپ ہے۔ وزیراعلیٰ ثنا اﷲ زہری کہتے ہیں کہ ایک فی صد لوگ بھی نہیں جو آزادی اور حقوق کا نعرہ لگارہے ہیں۔ ہم نے حالات بدل ڈالے ہیں۔ ان کا سوال بجا ہے کہ جو لوگ پاکستان کی رٹ نہیں مانتے کیا ہم ان کی بات مان لیں۔ ہم تو کہتے ہیں آؤ آئین کو مانو اور تعلیم روزگار اور پیسہ بھی لو۔ ہم ہر ایک سے مذاکرات پر بھی تیار ہیں لیکن جو بات ہوگی آئین کے فریم ورک میں ہوگی۔ ثنا اﷲ زہری بہت مشتعل تھے۔ انہوں نے کہاکہ نام نہاد علیحدگی پسندوں نے اپنے بھائیوں کے قتل کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والوں کا بلوچوں کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں۔ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی حکومتی سطح پر ہونے والی نا انصافیوں کا اعتراف بھی کررہے تھے اور علیحدگی پسندوں کو نشانہ بنانے کی بات بھی کررہے تھے۔ وزیر سیفران جنرل عبدالقادر کو مسلم لیگ ن کا بخار چڑھا رہا سارا زور نواز شریف کی بے گناہی ثابت کرنے پر لگاتے رہے۔ گورنر صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں۔ سردار عبدالصمد اچکزئی کے بڑے صاحبزادے ہیں ان سے گفتگو کرکے صدر ممنون یاد آگئے۔ کھری کھری باتیں کررہے تھے۔ یعنی انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ کہاں سے حکومت کی مخالفت شروع ہوگی اور کہاں سے وفاق کی نمائندگی ختم ہوگی۔ ان کی گفتگو صرف دلچسپ تھی چناں چہ دلچسپی سے سنی گئی، نہ ابتدا کی خبر تھی نہ انتہا معلوم۔بلکہ پوچھنے لگے اتنے سارے لوگ کس سلسلے میں آئے ہیں، وہ اب تک انگریز کے زمانے میں جے رہے ہیں۔ میر حاصل بزنجو ایک زمانے میں بلوچوں کے حقوق کے اسی طرح دعویدار تھے جس طرح آج کے علیحدگی پسند ہیں اور وفاق کو مورد الزام ٹھیراتے تھے لیکن آج خود وفاق کا حصہ بن گئے ہیں۔



ان کے ساتھ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بہت اہم سوال کیا جس میں بہت سارے سوالات کا جواب تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ناراض بلوچوں کو پہاڑوں سے اتارنے کا کام شروع کیا تھا اسے کس حد تک کامیاب دیکھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا مجھے دو ٹاسک دیے گئے تھے ایک ناراض بلوچوں کو اتارنا اور دوسرے براہمداغ بگٹی کو واپس لانا۔ لیکن ابھی میرے رابطے چل رہے تھے اور بات بہت آگے جاچکی تھی کہ میں نواز شریف کی طرح نکالا گیا۔ کوئی مجھے بتادے کہ مجھے کیوں نکالا گیا۔ اس سوال میں یہ جواب موجود ہے کہ بہت سی قوتیں بلوچستان کے حالات کو درست نہیں دیکھنا چاہتیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک مذاکرات کرکے لوگوں کو پہاڑوں سے اتارتے تھے اور موجودہ حکمران کہتے ہیں کہ پہلے اتر آؤ آئین مانو پھر بات کریں گے۔ دونوں میں فرق ہے، اعتماد کا فرق۔ڈاکٹر مالک کا خان آف قلات سے بھی رابطہ تھا لیکن حکومت ختم ہوگئی۔ابتدا میں ہم نے بات کی تھی پسماندگی کی لیکن اگر بلوچ رہنماؤں سے گفتگو کو سامنے رکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بلوچستان پسماندہ نہیں بلکہ محروم ہے۔ قیادت سے محروم، خلوص سے محروم، وفاق کی سرپرستی سے محروم۔ یہ ہر اعتبار سے محروم ہے۔ جب بلوچستان حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ بلوچستان کی 14 نشستوں کے بجائے 40 نشستوں کی بات کررہے تھے تو کسی بلوچ لیڈر کو فکر نہیں ہوئی، کسی علیحدگی پسند نے بھی اعتراض نہیں کیا بلکہ دو صوبوں کے لوگوں کا رد عمل حیران کن تھا۔ ان کا کہناتھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سینیٹ میں تو نمائندگی پوری برابر ہے ناں۔۔۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ 350 کے ایوان میں 14 کی کیا حیثیت۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کو کیا تکلیف اگر بلوچستان کی نشستیں 40 ہوجائیں، بلوچستان کے تو اضلاع بھی سندھ سے زیادہ ہیں۔



نہیں ۔۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب 40 ارکان بلوچستان کے ہوں گے تو لا محالہ مرکزمیں حکومت بنانے میں ان کا اہم کردار ہوگا پھر بلوچستان عدم توجہ کا شکار نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح پنجاب کے لوگوں کو بھی فکر ہوئی اور وہ بھی ایسے ہی رد عمل کا اظہار کررہے تھے یہاں سندھ اور پنجاب کی سوچ یکساں تھی تو پھر بلوچستان پسماندہ کیوں نہ رہے گا۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ اہم ہے کہ 14 کو 40 کیسے بنایا جائے۔ آبادی کم ہے لیکن رقبے کے اعتبار سے تقسیم ہونی چاہیے صرف اضلاع کی بنیاد پر ایک ضلع ایک رکن تو بھی بہتری ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات ایک ضلع سے دوسرے ضلع جانے کے لیے سیکڑوں میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے کیوں کہ براہ راست سڑک نہیں ہے۔سڑک کیوں نہیں ہے، اس کا جواب گزشتہ 47برس میں وزیراعلیٰ دینے والے کسی سردار کے پاس نہیں، پنجاب سڑک نہیں بناسکتا وہاں جاکر کوئٹہ آؤ اور واپس جاؤ۔۔۔ اس حوالے سے وفاق کو بھی سوچنا ہوگا۔ جہاں تک فوجی آپریشن کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا تعلق ہے تو امریکا سمیت ساری دنیا طاقت استعمال کرکے شکست کھاچکی ہے، بات تو مذاکرات کی میز تک لانی ہوگی۔ کون اسے مذاکرات تک پہنچائے گا یہ بھی مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن وفاق کی حامی قوتوں، آئین کی بالادستی کے دعویداروں کو سوچنا ہوگا کہ صوبے کے وسائل کس طرح سب کو یکساں فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ ماضی کی غلطیاں پھر نہ دہرائی جائیں۔ گیس کی رائلٹی عوام کو ملنی چاہیے، تیل کی رائلٹی بھی عوام کو ملنی چاہیے، دوسری معدنیات بھی نکالیں لیکن رائلٹی عوام کو ملنی چاہیے کیسے؟؟ بڑا آسان فارمولا ہے۔ تمام معدنیات کی آمدن کا 25 فی صد اسکول، کالج، یونیورسٹی، سڑکوں اور پانی و صحت کی سہولتوں کے لیے مختص کردیا جائے، حقوق منتقل ہوجائیں گے لیکن اس کے لیے خلوص چاہیے نعرے اور دعوے نہیں۔
اور ہاں! وہ ریکوڈک منصوبے کا کیا ہوا جو بلوچستان ہی نہیں پورے پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔