نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری

362

عدالتِ عظمیٰ سے نا اہل قرار دیے گئے نواز شریف جن کو حکمران جماعت کا صدر بھی بنادیاگیا ہے گزشتہ جمعرات کو احتساب عدالت نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے ہیں جو فی الوقت تو قابل ضمانت ہیں لیکن اگر وہ اب بھی طلب کرنے پر پیش نہ ہوئے تو مزید سخت فیصلہ آسکتا ہے۔ میاں نواز شریف اپنی بیمار اہلیہ کو لندن میں چھوڑ کر سعودی عرب کی سیر کرتے پھر رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ ایک بار پھر سعودی حکمرانوں کو اپنی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ماضی میں جب پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر انہیں جیل میں ڈالا تھا تو سعودی عرب ہی مدد کے لیے آگے بڑھا تھا اور ان کے لیے جدہ میں سرور پیلس مختص کردیاگیا تھا۔ لیکن اب کہا جارہاہے کہ سعودی عرب نے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔ عدالت نے 3 نومبر کو ایک بار پھر طلب کرلیا ہے اور انتباہ کیا ہے کہ یہ آخری موقع ہے، اب مزید مہلت نہیں دی جائے گی۔ نواز شریف کی آمد کی اطلاعات تو کئی دن سے گرم ہیں کہ وہ 26 اکتوبر کی پیشی پر حاضر ہورہے ہیں اور لندن سے چل پڑے ہیں لیکن وہ کہیں اور چلے گئے۔ اگر وہ اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر سعودی عرب جاسکتے ہیں تو پاکستان بھی آسکتے تھے۔ حاضری لگاکر پھر چلے جاتے۔ ان کے لیے آنا جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے مشکوک ہوتے ہوئے سیاسی مستقبل کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ اگلی پیشی پر ضرور حاضر ہوجائیں ورنہ ان کے مخالفین نے تو کہنا شروع کردیا ہے کہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے اور یہ کہ شیر لندن جاکر بلا بن گیا ہے۔ ان کو گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی ہورہاہے اور ان کا موازنہ شرجیل میمن سے کیا جارہاہے کہ ان کو تو پکڑلیا، نواز شریف اینڈ کمپنی کو کھلی چھوٹ ہے۔ احتساب عدالت نے حاضری سے استثنا کی درخواست مسترد کردی ہے اور 50 لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے والے ضامن ڈپٹی میئر اسلام آباد کو بھی نوٹس دے دیا ہے کہ ضمانت ضبط ہوسکتی ہے۔



نواز شریف کی بیٹی اور داماد عدالت میں باقاعدگی سے پیش ہورہے ہیں تاہم بڑے ٹھاٹ باٹ کے ساتھ جسے مخالفین نے کیٹ واک احتساب کا نام دیا ہے۔ فیصلہ جب ہوگا تب ہوگا لیکن عدالتوں میں بڑے اہتمام سے پیشی پر مریم نواز کو خوب شہرت مل گئی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو پیشی کے موقع پر مریم نواز نے ایک بار پھر شریف خاندان کے احتساب کو ڈھونگ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ پیشی کے بعد مریم نواز نے ان مقدمات کو سازش قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے خلاف سازشوں میں سب ایک ہیں اور ثبوت ڈھونڈے نہیں بنائے جارہے ہیں، انصاف کی بات کرو تو اسے توہین عدالت قرار دیا جاتا ہے۔ مریم نواز نے پرویز مشرف کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کسی منصف کو آمر سے پوچھنے کی ہمت نہیں۔ لیکن کیا ان کے والد نے اپنے دور حکومت میں آمر کے خلاف کوئی قدم اٹھایا؟ اس موقع پر ایک اہم بات یہ ہوئی کہ مریم نواز نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو اپنی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا حالانکہ یہی حکومت ان کو سرکاری پروٹوکول دے رہی ہے۔ اس سوال پر کہ کیا آپ کی حکومت پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری کرے گی تو مریم صفدر نے بڑے تلخ لہجے میں کہا ’’ہماری حکومت! ہماری حکومت! اس پر اب خاموش رہنا ہی بہتر ہے، اتنے سادہ آپ بھی نہیں اور میں بھی نہیں، آپ کو بھی پتا ہے کہ اصل بات کیا ہے‘‘۔ مریم کی یہ تلخی ظاہر کررہی ہے کہ ان کو اپنی حکومت سے بھی شکوہ ہے۔ لیکن کیا اور کیوں؟ کیا ان کے پروٹوکول میں کچھ کمی رہ گئی ہے اور کیا ہر ملزم اسی کروفر کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوتا ہے؟ مریم نواز نے دھمکی دی ہے کہ سازش میں شریک لوگوں کی باری بھی آئے گی۔ اگر کوئی سازش کررہاہے تو اس کی باری آنی چاہیے لیکن مریم نواز یہ تو واضح کردیں کہ ان کے خلاف سازش میں کون کون شریک ہیں تاکہ قوم بھی سازشیوں کو پہچان لے۔