فیصل آباد (وقائع نگار خصوصی) جماعت اسلامی کے ضلعی امیر سردار ظفر حسین خان ایڈووکیٹ نے دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں پاکستانیوں کی ساڑھے 8 کھرب روپے کی سرمایہ کاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن کے تحت دبئی رئیل اسٹیٹ میں اتنی بڑی سرمایہ کاری ہوئی۔ عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لے کر بڑے مگر مچھوں کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے انہیں ملک کے آئین وقانون کا پابند بنائے اور پاکستانی قانون میں موجود سقم دور کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کے گھناؤنے کاروبار کا قلع قمع کیا جائے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور یہاں کے عوام کی اکثریت دو ڈالر یومیہ سے کم کماتی ہے۔ 95 فیصد آبادی پر محض 5 فیصد اشرافیہ کا طبقہ برسراقتدار ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان تفریق پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ غریب عوام ایک طرف مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں تو دوسری جانب رہی سہی کسر جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی عوام دشمن پالیسیوں نے پوری کردی ہے۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے ماضی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹیاں عملاً غیر فعال ہوچکی ہیں۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے والے محب وطن نہیں۔ پاناما لیکس میں شامل دیگر 436 پاکستانیوں اور اسی طرح دبئی لیکس، سوئس اکاؤنٹس رکھنے والوں کا بھی کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور احتسابی نظام کو شفاف بنانا چاہیے۔ ناانصافی اور بدعنوانی پر مشتمل فرسودہ نظام ملکی ترقی وخوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اسلام کے معاشی نظام کو اختیار کرکے ہی ہم ملکی معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں۔ حکمرانوں نے اپنے دور اقتدار میں قرضوں کے پہاڑ کھڑے کردیے ہیں۔