پانی کا بحران خطرے کی علامت

428

ملک بھر میں پانی کے بحران نے شدت اختیار کرلی ہے اور بڑے بڑے ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے۔ اس سے جہاں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہواہے وہیں آبپاشی کا نظام بھی بری طرح متاثرہواہے، منگلا اور تربیلا ڈیم سے بجلی بننا بند ہو گئی ہے۔ چشمہ بیراج کے بھی 10یونٹس بند ہو گئے ہیں۔ دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ3ہزار کیوسک جبکہ دریائے چناب میں صرف 2ہزار کیوسک رہ گیا ہے ۔ گندم کی فصل کے لیے اس وقت 20فیصد پانی کم ہے۔ اگر ابھی سے پانی کی فکر نہ کی گئی تو مسائل اور بڑھ جائیں گے۔ محکمہ زراعت کے مطابق گندم کی بوائی کی انتہائی تاریخ15نومبر ہے۔ کاشت کار اس وقت دہری مصیبت میں مبتلا ہیں، پانی کی قلت کے باعث کاشتکاری دشوار ہورہی ہے۔ تاخیر کی صورت میں فصل سے ہاتھ دھونے پڑیں گے ۔ عوام کے لیے پانی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کوئی نئی بات نہیں ہے، جن کو پانی ہی میسر نہ ہو وہ بھلا کمی کے لفظ کو کیاجانیں۔ لیکن یہاں حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، پانی کا بحران اچانک نہیں آیا۔ یہ ہر سال کا معمول ہے ، پھر کیوں وقت سے پہلے منصوبہ بندی کرکے اقدامات نہیں کیے جاتے؟ ڈیم اس وقت خالی ہورہے ہیں لیکن جب پانی ہوتا ہے تو ڈیم نہ ہونے کے باعث سیلابی کیفت پیدا ہوجاتی ہے یا لاکھوں گیلن پانی سمندر میں بہادیاجاتاہے۔ طویل عرصے سے پاکستان میں نئے ڈیم نہیں بنے ۔ کالا باغ ڈیم برسوں سے متنازع ہے اور علاقائی مفاد مد نظر رکھنے والے آج بھی دھمکی دے رہے ہیں کہ یہ ڈیم نہیں بننے دیں گے۔پانی کی قلت کو عوام تو جیسے تیسے جھیل لیں گے لیکن گندم اور دیگر فصلوں کی پیدوار تباہ ہوئی تو اس کا فوری اثر معیشت پرپڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی عوام بھی پانی جیسی نعمت کو ضائع کرنے سے گریز کریں ۔ جہاں پانی میسر ہے وہاں بڑی بے دردی سے ضائع کیاجارہاہے جب کہ احادیث میں پانی ضائع کرنے کی سخت ممانعت کی گئی ہے حتیٰ کہ ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے سے وضو بھی مکروہ ہوجاتاہے۔