سرسید اور مشرق و مغرب کے درمیان مکالمہ؟

688

سرسید کی تصویر دیکھ کر کسی کو خیال بھی نہیں آسکتا کہ سرسید لطیفہ گو بلکہ لطیفہ باز بھی ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار ایک شیعہ نے سرسید سے پوچھا: ’’اگر آپ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے زمانے میں ہوتے تو کس کو خلیفہ بنانے کی کوشش کرتے؟‘‘ سرسید نے یہ بات سنی تو چند لمحے توقف کیا، پھر فرمایا: ’’میاں اگر ہم اُس زمانے میں ہوتے تو اپنی خلافت کے لیے کوشش کرتے‘‘۔ سرسید کے اس ’’تاریخی لطیفے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسید کی تحریریں خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہوں اُن کے لطیفے ’’بامعنی‘‘ ہوتے تھے۔ اتفاق سے کراچی میں سرسید کی دو سو ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والے سیمینار کے کئی شرکا نے سرسید کی لطیفہ بازی کی روایت کو بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ مذکورہ سیمینار تین دن جاری رہا۔ اس سیمینار کا اہتمام جامعہ کراچی کے شعبہ اردو نے کیا تھا۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ سرسید سے متعلق سیمینار کے فاضل مقررین نے کیسے کیسے ’’علمی لطائف‘‘ تخلیق کیے۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد ایک معروف سوشلسٹ اور سیکولر دانش ور ہیں۔ وہ جامعہ کراچی میں پاکستان اسٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ علمی حلقوں میں ڈاکٹر صاحب کی بڑی قدر و منزلت ہے، مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے سیمینار میں سرسید کے حوالے سے ایسی باتیں کہیں جن کی کوئی تاریخی اور علمی بنیاد ہی نہیں ہے۔ ’’ڈیلی ڈان‘‘ کراچی کی 17 اکتوبر 2017ء کی اشاعت میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ سرسید نے اپنی جدوجہد میں مشرق و مغرب کے درمیان ’’مکالمے‘‘ کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول سرسید نے برصغیر کے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان ’’پُرامن بقائے باہمی‘‘ کا ماحول بھی پیدا کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ڈاکٹر جعفر نے سرسید کے زمانے میں یہ کہا ہوتا کہ سرسید نے مشرق و مغرب کے درمیان مکالمے کی راہ ہموار کی تو سرسید ڈاکٹر صاحب کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیتے۔ اس لیے کہ سرسید کے نزدیک مغرب ہی سب کچھ تھا۔ سرسید مشرق کیا، مسلمانوں اور ان کے تمام علوم و فنون کو فضول، ماضی کی یادگار اور بے وقت کی راگنی سمجھتے تھے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ مغرب اُن کے نزدیک ’’غالب‘‘ تھا اور مشرق ’’مغلوب‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں سرسید مشرق و مغرب کے درمیان مکالمے کا آغاز کیسے کرا سکتے تھے؟ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مغرب سرسید کی جیب میں پڑی ہوئی کوئی چیز نہیں تھا کہ سرسید اُسے حکم دیتے کہ چلو اُٹھو اور مشرق کے ساتھ مکالمہ کرو اور مغرب کہتا: جی حضور ذرا بتائیے تو کس ٹیبل پر بیٹھوں؟ مغرب سرسید کا آقا بلکہ ’’خالق‘‘ تھا، اور سرسید مغرب کی ’’مخلوق‘‘ تھے، اور سرسید کے خالق کی تاریخ یہ ہے کہ اُس نے آج تک کسی قوت بالخصوص غلاموں کے ساتھ مکالمہ نہیں کیا۔ لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں خود سرسید کی تحریریں کیا کہتی ہیں؟ سرسید نے فرمایا:
’’وہ زمانہ جس میں انگریزی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی، ایک ایسا زمانہ تھا کہ بے چاری انڈیا بیوہ ہوچکی تھی۔ اس کو ایک شوہر کی ضرورت تھی۔ اس نے خود انگلش نیشن کو اپنا شوہر بنانا پسند کیا۔ انگلش نیشن ہمارے مفتوحہ ملک میں آئی مگر مثل ایک دوست کے، نہ کہ بطور ایک دشمن کے‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ238)
ایک اور مقام پر سرسید نے لکھا:
’’خدا کی مرضی ہوئی کہ ہندوستان ایک دانش مند قوم کی حکومت میں دیا جائے جس کا طرزِ حکومت زیادہ تر قانونِ عقلی کا پابند ہو۔ بے شک اس میں بڑی حکمت خدا تعالیٰ کی تھی‘‘۔ (افکار سرسید۔ از ضیاالدین لاہوری۔ صفحہ239)
ایک جگہ سرسید رقم طراز ہیں:
’’ہم کو جو کچھ اپنی بھلائی کی توقع ہے وہ انگریزوں سے ہے‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ241)
سرسید نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
’’خدا کا شکر ہے کہ ہم ملکہ معظمہ کوئن وکٹوریہ قیصرِ ہند کے زیر سایہ ہیں‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ241)
اس سلسلے میں سرسید کی ایک اور تحریر کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
’’ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے۔ اس کی اطاعت اور فرماں برداری اور پوری وفاداری اور نمک حلالی، جس کے سایہ وعاطفت میں ہم امن وامان سے زندگی بسر کرتے ہیں، خدا کی طرف سے ہمارا فرض ہے۔ میری رائے آج کی نہیں بلکہ پچاس ساٹھ برس سے اسی رائے پر قائم ہوں‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ242)
سوال یہ ہے کہ ان تحریروں میں سرسید کیسے انسان نظر آرہے ہیں؟ ایک آزاد اور صاحبِ عزت انسان، یا ایک ایسے انسان جو انگریزوں کی غلامی کو صرف سیاسی اور عسکری سطح پر ہی نہیں۔۔۔ ذہنی، نفسیاتی، تہذیبی بلکہ مذہبی سطح پر بھی قبول کرچکا ہے۔ اسی لیے سرسید کو انگریزوں کی غلامی ’’خدا کی مرضی‘‘ اور ’’خدا کی رحمت‘‘ نظر آرہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا شخص مشرق و مغرب کے درمیان کیسے اور کیوں مکالمہ کرائے گا؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جس شخص کو مغرب پہلے ہی اپنے قدموں میں پڑا ہوا پاتا ہو اُس شخص یا اُس کی تہذیب سے مغرب کس لیے مکالمے کی زحمت کرے گا؟ مغرب اگر سرسید کے زمانے میں مشرق سے مکالمہ کرتا بھی تو اُن لوگوں سے کرتا جو اس کی مزاحمت کررہے تھے۔ جو شخص مغرب کی غلامی کھا رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی پی رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی بچھا رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی اوڑھ رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی کو خدا کی مرضی اور اس کی رحمت کہہ رہا ہو اُس سے عقلی طور پر بھی مغرب کو مکالمے کی ضرورت نہیں ہوسکتی تھی۔ افسوس ڈاکٹر سید جعفر احمد نے ان معاملات پر جو سرسید کے حوالے سے واضح ہیں، غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ سرسید نے مشرقی اور مغربی علوم کے درمیان کیسا مکالمہ کرایا ہے؟ لکھتے ہیں:
’’کیا ہندوستان کی ترقی علومِ مشرقی کی ترقی سے ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔‘‘ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ205)
ایک اور مقام پر سرسید نے لکھا ہے:
’’ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو علومِ مشرقی کی ترقی کے پھندے میں پھنسانا ہندوستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے بلکہ دھوکے میں ڈالنا ہے‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ206)
مشرقی علوم جن میں تفسیر، سیرتِ طیبہؐ، علمِ حدیث اور فقہ شامل ہیں، کے برعکس سرسید مغربی علوم کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے انہی کی زبانی سنیے۔ کہتے ہیں:
’’ہمارے ملک کو، ہماری قوم کو اگر درحقیقت ترقی کرنی ہے اور فی الواقع ہمیں ملکۂ معظمہ، قیصرہ ہند کا سچا خیر خواہ اور وفادار رعیّت بننا ہے تو بجز اس کے اور کوئی راہ نہیں ہے کہ علومِ مغربی و زبانِ مغربی میں اعلیٰ درجے کی ترقی حاصل کریں‘‘۔
(افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ206)
ایک اور مقام پر سرسید نے فرمایا ہے:
’’جو شخص اپنی قومی ہمدردی سے اور دُور اندیش عقل سے غور کرے گا کہ ہندوستان کی ترقی۔۔۔ کیا علمی، کیا اخلاقی۔۔۔ صرف مغربی علوم میں اعلیٰ درجے کی ترقی حاصل کرنے پر منحصر ہے۔ اگر ہم اپنی اصلی ترقی چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک کو بھول جائیں۔ تمام مشرقی علوم کو نسیاً منسیاً کردیں (یعنی بھلادیں، مٹادیں)۔ ہماری زبان یورپ کی اعلیٰ زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہوجائے۔ یورپ ہی کے ترقی یافتہ علوم دن رات ہمارے دست مال ہوں۔ ہمارے دماغ یورپین خیالات سے (بجز مذہب کے) لبریز ہوں۔ ہم اپنی قدر، اپنی عزت کی قدر خود کرنا سیکھیں، ہم گورنمنٹ انگریزی کے ہمیشہ خیر خواہ رہیں اور اسی کو اپنا محسن سمجھیں‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ207)
۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔