ملک بھر میں آگاہی مراکز فعال ہیں‘ حکومتی کوششوں کے نتیجے میں رواں برس پولیو کے صرف 5 کیس سامنے آئے‘ عالمی پروگرام کی وجہ سے مرض پر بڑی حد تک قابو پایا جا چکا ہے
پیدائش سے لے کر 5 سال کی عمر تک بچوں پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے‘ علامات ظاہر ہوں تو ماہر معالج سے فوراً رجوع کیا جائے‘ پولیو کے تدارک کے لیے وزیر اعظم پروگرام کی فوکل پرسن سے خصوصی انٹرویو
انٹر ویو : میاںمنیر احمد
سوال: پولیو کیا ہے‘ اب تک آپ اس کے حوالے سے کیا کچھ کر سکی ہیں اور حکومت کی اس مرض کے حوالے سے کیا ترجیحات ہیں، پولیو کی تاریخ کے بارے میں بھی کچھ بتایئے؟
جواب: یہ ایک وائرس ہے اور یہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی آجاتا ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ پیدائش کے بعد یہ کسی بھی وقت آسکتا ہے، اس لیے آسان الفاظ میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایک سے 5 سال کی عمر تک کے بچے اس وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات 5 سال کی عمر سے بڑے افراد پر بھی یہ وائرس حملہ آور ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں یہ وائرس نہیں تھا، ہمارے ہاں یہ باہر سے آیا ہے۔ یہ دراصل انسان (بچے) کے دماغ میں سے آتا ہے۔ انسان کا سارا اعصابی نظام دماغ ہی کنٹرول کرتا ہے اور یہ وائرس ذہن یا دماغ سے بھی جسم میں پھیلتا ہے اور بچوں کو معذور بنا دیتا ہے۔ یہ جسم کے کسی بھی حصے پر حملہ آور ہوسکتا ہے، جس سے متاثرہ شخص کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ اس کا علاج ویکسین ہے۔ یہ بیماری در اصل1580 قبل مسیح میں پہلی بار سامنے آئی تھی اور اس کے بعد بیسویں صدی میں اس بیماری نے بہت خوف زدہ صورت اختیار کرلی تاہم ویکسین کی دریافت کے بعد اس کا علاج ممکن ہوا ہے۔ 1950ء کی دہائی میں ویکسین آچکی تھی اور اس کے بعد سے مسلسل یہ قابل علاج مرض ہے۔ عالمی سطح پر اس کوشش کے آغاز کے بعد پولیو کے خلاف گلوبل پروگرام کی وجہ سے اس پر قابو پایا جاچکا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں یہ مرض دنیا میں روزانہ ایک ہزار بچوں کو معذور بنا رہا تھا۔ اور انسداد کے پروگرام کے تحت ڈھائی ارب بچوں کو ویکسین کے ذریعے محفوظ بنایا گیا ہے اور عالمی سطح پر اس وقت اس کے لیے 11 ارب ڈالر کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں1999ء میں صرف 2 کیس رپورٹ ہوئے تھے۔
سوال: پولیو کی علامات کیا ہیں؟
جواب: بخار‘ پسلیوں میں درد‘ سر درد‘ متلی‘ گردن میں سختی اس کی علامات ہیں۔
سوال: اس خطرناک مرض کے حوالے سے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں؟
جواب: اس کے لیے کوئی احتیاط نہیں ہے، صرف ویکسین ہی اس کاعلاج ہے اور یہ لازمی کرانی چاہیے۔
سوال: پاکستان میں حکومتی سطح پر اس مرض کو روکنے کی کوششوں اور ان کے نتائج کیاہیں؟
جواب: پاکستان میں حکومت نے اس مرض کے حوالے سے نہایت سنجیدہ کوششیں کی ہیں اور اس بیماری سے مقابلے کے لیے کسی طرح بھی سمجھوتا نہیں کیا گیا۔ ملک میں اس حوالے سے ہر صوبے میں اطلاعاتی مراکز کام کر رہے ہیں، جن کی تعریف وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی نے بھی کی ہے اور انہوں نے ان مراکز کے کام کو بھی سراہا ہے۔ حکومت کی بھرپور توجہ کے باعث ملک سے پولیو ختم ہورہا ہے اور اس سال اب تک صرف 5 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں اکتوبر میں ورلڈ ہیلتھ پروگرام کی ایک کانفرنس ہوئی جس میں پوری توجہ اسی موضوع پر تھی۔ اس کانفرنس میں نیشنل ایمرجنسی کوآرڈینیشن پروگرام کے ڈاکٹر صفدر‘ ڈاکٹر اسد حفیظ‘ ڈاکٹر ملک محمد صافی‘ ڈاکٹر سمارا مظہر‘ ڈاکٹر سبین جیسے ماہرین شامل تھے جن سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اس کانفرنس میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ’’شام‘‘ میں 48 کیس سامنے آئے‘ افغانستان میں 7 اور پاکستان میں اب تک اس سال 5 کیس سامنے آئے ہیں۔ 2 کروڑ 70 لاکھ اورل ویکسین کی خوراک بچوں کو دی گئی ہے۔ پاکستان میں مخصوص اضلاع میں 40 لاکھ بچوں کو ویکسین دی گئی اور 30 اکتوبر کو قومی سطح پر ایک اور مہم شروع کی جارہی ہے۔ یہ خصوصی مہم کے پی کے، بنوں‘ لکی مروت، ڈی آئی خان جیسے اضلاع میں چلائی جائے گی۔ اس حوالے سے کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک سے 5 سال کی عمر کا کوئی بچہ ویکسین سے رہ نہ جائے۔ اسی طرح سندھ میں سکھر‘ روہڑی‘ جیکب آباد‘ کشمور‘ قنبر، لاڑکانہ، شکار پور‘ بلوچستان میں جھل مگسی‘ژوب اور شیرانی میں مہم پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اسی طرح اسلام آباد‘ راولپنڈی پر بھی توجہ ہے کیونکہ یہ مرض انسانوں سے انسانوں میں پھیلتا ہے۔ لہٰذا جب جب ہجرت کی ہوتی ہے تو بہت زیادہ توجہ کا باعث بن جاتی ہے۔
سوال: کس ملک میں اس مرض کے خطرات ابھی تک موجود ہیں؟
جواب: ایتھوپیا‘ گنی‘ چاڈ‘ وسطی افریقی ممالک‘ عراق کینیا‘ یوکرائن‘ برما ‘سیر الیون‘صومالیہ‘ لائبیریا وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں اس وائرس کے خطرات ابھی تک ہیں۔
سوال: افغانستان میں اس مرض کے حوالے سے کچھ تفصیلات بتائیں؟
جواب: عالمی پروگرام کے تحت پولیو کے خاتمے کے لیے افغانستان میں بہت کام ہوا ہے اور ابھی بھی ہورہا ہے۔
سوال: پاکستان میں اس مرض پر توجہ کب دی گئی اور اس وقت کیا صورت حال ہے؟
جواب: 1978ء میں اس حوالے سے منظم کوشش ہوئی‘2008ء تک اس پروگرام کے ذریعے ملک میں 11 ارب ڈالر کی ویکسین فراہم کی جاچکی تھی تاکہ پولیو کے وائرس سے بچوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ پاکستان میں اس وقت پنجاب میں لودھراں‘ کے پی کے میں لکی مروت‘ بلوچستان میں قلعہ عبداللہ‘ سندھ اور گلگت میں دیامیر میں ایک کیس رپورٹ ہوا ہے؍ یوں پورے ملک میں 5 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
سوال: یہ بتایئے کہ عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے اثرات اور فوائد کیا ملے ہیں اور اس وقت بچائو کے لیے کیا کیا جارہا ہے؟
جواب: 4 سال قبل عالمی ہیلتھ پروگرام کے تحت کچھ ممالک پر پابندی لگائی گئی کہ اگر ان کے باشندے دنیا کے کسی بھی ملک میں جائیں تو ویکسین کراکر جائیں گے۔ افغانستان‘ کیمرون‘ شام‘ ایتھوپیا‘ صومالیہ‘ عراق‘ اسرائیل اور دیگر ممالک ان میں شامل ہیں۔
سوال: کیا یہ پابندی پاکستانیوں کے لیے بھی ہے؟
جواب: جی ہم بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں اور بیرون ملک سفر کے لیے جاتے ہوئے پاکستان کے شہری بھی ویکسی نیشن کراتے ہیں۔ اصل میں ترقی پذیر ممالک ابھی تک پوری طرح اس خطرے سے باہر نہیں نکلے۔
سوال: ہمارے ہاں فاٹا کی کیا صورت حال ہے؟
جواب: ماضی میں کچھ کیس سامنے آئے تھے لیکن اب الحمد اللہ بہت فرق پڑا ہے۔ اس سال ابھی تک کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ گزشتہ سال ملک میں تقریباً 20 کیس سامنے آئے تھے۔ ان میں سندھ میں کراچی‘ جیکب آباد ‘ بدین‘ شکار پور‘ سجوال‘ کے پی کے میں نوشہرہ‘ ہنگو‘ بنوں‘ پشاور‘ ڈی آئی خان اور کوہستان جب کہ کوئٹہ اور جنوبی وزیرستان میں چند کیس سامنے آئے تھے۔ یہ مرض اصل میں ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیلتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
سوال: اس مرض کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنیادی طور پر ایک ماں کے لیے کیا کرنا لازم ہے کہ اس کا بچہ اس مرض سے محفوظ رہ سکے یا کم از کم آغاز میں ہی اس پر توجہ دی جاسکے؟
جواب: جب بچہ پیدا ہوتا ہے اور اٹھنے بیٹھنے لگتا ہے تو اس پر بہت توجہ دینی چاہیے کہ کہیں بچہ اٹھنے اور بیٹھنے میں‘ کھڑا ہونے میں کچھ لاغر تو دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر ایسی صورت پائی جائے تو فوراً اور لازمی کسی ماہر معالج کو دکھایا جائے۔ حاملہ خواتین اپنی خوراک کا خیال رکھیں۔ آرام کریں‘ نیند پوری کریں‘ سیر کریں اور قدرتی پھل کھائیں۔ قدرتی پھل تو شوگر کے مریض کے لیے بہتر ہوتے ہیں۔ مصنوعی مٹھائی نہ کھائیں، اگر کوئی ذیابیطس کا مریض ہے تو اسے لازمی خیال کرنا چاہیے۔