بچے سب کے سانجھے 

166

موجودہ معاشرے میں زندگی گزارنا قدرے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خود غرضی اور مادیت پرستی ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہیں ہم جیسے سفید پوش پھر بھی گزارہ کرلیتے ہیں مگر کم آمدنی والے طبقے والے باآسانی پورا نہیں کرپاتے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی تعلیم تربیت پر مال و متاع خرچ کرنے کے بجائے ان کو مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ یہ کم سن کم عمر بچے اپنے مستقبل کی سوچ بچار کرنے کے بجائے اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔ ننھے ہاتھوں کو کتابوں کی چمکتی ہوئی روشنی کی ضرورت ہوتی ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کے پیٹ کا ایندھن بھرنے میں لگادیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بچے سڑکوں پر مختلف اشیاء فروخت کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ ایسے بچے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان کے اوپر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ ان بچوں کی ذہنی حالت بھی ابتر ہوچکی ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ بچے چوری کرنے میں لگ جاتے ہیں یہی بچے آگے چل کر جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر یہ بھی تو ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔ ان کو بھی جینے کا حق ویسا ہی ہے جسے دوسرے بچے جیتے ہیں۔ آخر کو خواب دیکھنے کا حق سب کا ہے۔ ہمیں چاہیے کے ہم ان بچوں کی معاشی و معاشرتی حالت کو بہتر بنانے میں ان کی مدد کریں۔ یہ بچے بھی بہتر زندگی گزار سکیں۔ کیوں کہ آخر کار بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔
تابندہ جبیں، کراچی