واٹس اپ پر ایک دلچسپ پوسٹ آئی کہ ایک صاحب کی شادی نہیں ہورہی تھی وہ روزآنہ دو رکعت صلوۃ حاجات پڑھتے تھے پھر ان کی شادی ہوگئی تو پھر اب وہ روزآنہ چار رکعت صلوٰۃ التوبہ پڑھتے ہیں۔ یہ لطیفہ مجھے اس حوالے سے یاد آیا کہ ہماری عدلیہ کے دامن پر جسٹس منیر کے ایک متنازع فیصلے کا داغ اتنا گہرا لگا ہوا ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد اس فیصلے کا ذکر آتا ہے کہ اس فیصلے نے ملکی سیاست کو ایسا دھچکہ پہنچایا کہ جس کی وجہ سے ہمارا جمہوری سفر بہت بری طرح متاثر ہوا۔ حالاں کہ اس کے بعد بھی اور بہت سے متنازع فیصلے آئے لیکن جسٹس منیر کے فیصلے کو سب سے زیادہ شہرت ملی اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہماری عدلیہ اپنے سابقہ غلط فیصلوں پر تائب ہورہی ہے۔
جسٹس منیر کے فیصلے نے ملکی سیاست میں ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی اصطلاح کو متعارف کرایا، کہ اس کی مختصر روداد یہ ہے کہ جب ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی تو عدالت عظمیٰ کے اطراف میں اتنے سخت پہرے لگا دیے کہ کوئی سیاسی آدمی عدالت کے احاطہ میں داخل نہیں ہوسکتا تھا اس وقت عدالت عظمیٰ کراچی میں ہوتی تھی ملک غلام محمد کی کوشش یہ تھی کوئی فرد اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ نہ جاسکے۔ اس وقت دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین نے برقع پہن کر رکشہ میں بیٹھ کر عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار کے پاس جاکر ملک غلام محمد کے فیصلے کے خلاف پٹیشن داخل کی۔ اس مرحلے پر ناکامی کے بعد اس وقت کے حکمرانوں کا اگلا قدم یہی تھا کہ عدلیہ پر اقتداری اثرات سے کام لیا جائے، جس کے بعد جسٹس منیر نے حکومتی دباؤ کو نظریہ ضرورت کا خوب صورت نام دے کر ملک غلام محمد کے حق میں فیصلہ سنایا ورنہ اگر اس وقت انصاف کا قتل عام نہ ہوتا اور عدالت عظمیٰ دستور ساز اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ کرتی تو آج ملک کی سیاسی تاریخ کچھ اور ہوتی۔
اس فیصلے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ عدلیہ کو دباؤ میں لیا گیا اور حکمرانوں نے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کیا اور پھر یہی چیز فوجی حکمرانوں کے لیے ایک ڈھال بن گئی جنرل ضیاء الحق نے پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لیے جن ججوں نے انکار کیا انہیں ریٹائر کردیا گیا۔ بعد میں پرویز مشرف نے بھی اسی طرح کا سلسلہ جاری رکھا جن ججوں نے پرویز مشرف کا کہنا نہیں مانا انہیں بھی گھر جانا پڑا۔ ہماری عدلیہ کی داستان بڑی پر پیچ، دلچسپ اور دلخراش بھی ہے اس پر تو ہزاروں صفحات پر مشتمل کئی کتب تحریر کی جاسکتی ہیں۔ مارشل لا کے ادوار ہی میں نہیں بلکہ سول حکومتوں کے دور میں بھی عدالتیں شدید دباؤ کا شکار رہی ہیں یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے کہ نواز شریف کے دور حکومت میں کس طرح عدلیہ پر حملہ کیا گیا، ججوں نے اپنے کمروں میں چھپ کر جان بچائی۔
ویسے تو نارمل حالات میں عدالتی نظام چلتا رہا کبھی کبھی فیصلے عوامی بحث کا موضوع بن جاتے تھے۔ بھٹو کے دور حکومت میں جو ایک طرح سے جبر کا دور تھا جسارت اخبار کے حق میں اور بھٹو حکومت کے خلاف فیصلے آتے رہے، لیکن عدلیہ کا اصل کردار پرویز مشرف کے دور میں افتخار چودھری کی ایک ’’ناں‘‘ سے نکھر کر سامنے آیا وہ ناں کیا تھی دراصل ہمارے یہاں عوام کی سطح پر بھی ایک ذہن یہ بن چکا تھا عدالت سے کوئی بھی فیصلہ حکومتی اقدام کے خلاف نہیں آسکتا یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان اسٹیل مل کی نج کاری کے حکومتی فیصلے کے خلاف پٹیشن داخل ہوئی تو عام خیال یہ تھا کہ حکومت کے حق میں ہی فیصلہ آئے لیکن جب افتخار چودھری نے حکومتی عزائم کے برخلاف فیصلہ سنایا تو پرویز مشرف کے ہوش اڑ گئے کہ اس وقت ان کی حکومت اپنے عروج پر تھی اور انہیں کسی کارنر سے کسی بھی قسم کے چیلنج کا سامنا نہیں تھا اس فیصلے نے پرویز مشرف کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر یہی چیف جسٹس رہا تو آگے بڑی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں پھر وہ داستان عزیمت شروع ہوتی ہے کہ افتخار چودھری کو بلا کر استعفا دینے کے لیے کہا جاتا ہے اور وہ انکار کردیتے ہیں اس ایک انکار سے اس تحریک کا آغاز ہوتا ہے جو عدلیہ کی آزادی کی تحریک بھی کہلائی، چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک بھی تھی اور پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھی تحریک تھی، اسی تحریک کے دوران 12 مئی 2007 کا دن بھی آیا جب چیف جسٹس افتخار چودھری کو کراچی میں آنا تھا اور انہیں پھر ائر پورٹ سے باہر نہیں آنے دیا گیا کہ صوبہ سندھ میں پرویز مشرف کی چہیتی ایم کیو ایم حکومت کی اہم شریک تھی اس دن 50سے زائد افراد کراچی کی سڑکوں پر مارے گئے جو چیف جسٹس کے استقبال کے لیے آئے تھے،
اسی دن شام کو اسلام آباد میں پرویز مشرف نے اپنا مکا لہرا کر کہا تھا کہ دیکھو طاقت سے ٹکراؤ گے تو ایسا ہی ہوگا وہ اس دن بہت خوش تھے کہ چیف جسٹس کو ائر پورٹ سے واپس آنا پڑا۔
ہماری عدلیہ کے ریکارڈ میں صرف قابل اعتراض اور متنازع فیصلے ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے دامن میں بہت اچھے فیصلوں کے ڈھیر بھی ہیں مثلاً سوشل میڈیا میں ناموس رسالت مہم چل رہی تھی اس پر اسلام آباد ہائے کورٹ کا ازخود نوٹس لینا اور اس حوالے سے متعلقہ اداروں کو جھنجھوڑنا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا یہ کہنا میں پچھلے دس روز سے سو نہیں سکا ہوں پھر اس سے قبل وہ ویلنٹائن ڈے پر بھی فیصلے دے چکے تھا جس پر معروف سیکولر خاتون رہنما عاصمہ جیلانی سمیت لبرل طبقے نے بھی برا منایا تھا۔
ہماری عدلیہ پر صرف حکمرانوں کا دباؤ ہی نہیں رہا بلکہ کچھ سیاسی جماعتوں نے بھی عدلیہ کو ناجائز طریقے سے دباؤ میں لیا، مثلاً 12مئی 2007 کے سانحے پر سندھ ہائیکورٹ نے از خود ایکشن لیا اس کی پہلی سماعت تو ہوگئی لیکن جب دوسری سماعت تھی ایم کیو ایم نے جس پر یہ الزام بھی تھا کہ اس نے 12مئی والے دن سندھ ہائیکورٹ کا ایسا گھیراؤ کیا کہ کسی وکیل اور جج کو اند رجانے نہیں دیا گیا تھا اسی ایم کیو ایم نے دوسری سماعت کے موقعے پر یہ کام کیا کہ کراچی سے چار سے پانچ ہزار افراد کو جمع کرکے عدالت میں بظاہر تو یہ کہہ کر لایا گیا کہ یہ لوگ عدالت میں گواہی دیں گے بباطن اس کا مقصد ججوں پر اپنی دھاک بٹھانا تھا اور پھر خاموشی سے یہ پیغام بھی دیا گیا کہ اگلی تاریخ میں اس سے دس گنا زیادہ لوگ ہوں گے اور پھر اس دن کراچی کے مسئلے پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ آج تک یہ مسئلہ التواء میں پڑا ہوا ہے حالاں کہ یہ سندھ ہائیکورٹ کا سو مو ٹو ایکشن تھا اس لیے سندھ ہائیکورٹ کی ذمے داری ہے کہ وہ اب اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
آج کل پاکستانی عوام اس بات پر حیران و پریشان ہیں کہ حکومت میں شامل بڑی بڑی شخصیتوں کے خلاف عدالتیں جو جرات مندانہ اقدام اٹھا رہی ہیں اس سے پہلے یہ منظر کسی نے نہ دیکھا تھا اب سے پانچ سال قبل پی پی پی کے وزیراعظم گیلانی صاحب کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا، اب ن لیگ کے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر حکومت سے بے دخل کیا گیا اور اب ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف کرپشن کے حوالے سے مقدمات چل رہے ہیں قومی احتساب بیورو کا ادارہ بھی فعال ہو گیا ہے نواز شریف صاحب اور ان کے بیٹوں پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے۔ یہ سب چیزیں اہل پاکستان صبح و شام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اس میں کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر یہ کہ نواز شریف ہی نہیں بلکہ پی پی پی کے صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن کو بھی اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں بارہ افراد سمیت گرفتار کرلیا گیا اس سے قبل پی پی پی کے رہنما آصف زرداری کے دوست ڈاکٹرعاصم کو گرفتار کیا گیا اب ان کو ضمانت پر رہائی ملی ہے۔
ان تمام تفصیلات سے معلوم ہورہا ہے پاکستان ایک انقلابی تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے کرپشن کے خلاف اگر ہماری عدالتوں کی طرف سے بھرپور اور مضبوط ایکشن لے لیا گیا اور جن لوگوں نے پاکستان کے عوام کا پیسہ لوٹ کر باہر کے بینکوں میں رکھا ہوا ہے اسے واپس منگوا لیا تو یہ پاکستان عوام کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کی مثالیں تو اب برصغیر کے اور ممالک میں بھی دی جانے لگی ہیں ابھی حال ہی میں بنگلا دیش کے چیف جسٹس کو اس لیے جبراً رخصت پر بھیج دیا گیا کہ اس نے پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کی تعرف کی تھی۔ بنگلا دیش کی ظالم وزیر اعظم حسینہ واجد پر یہ خوف سوار ہوگیا کہ پاکستانی عدالتوں کو دیکھ کر بنگلا دیش کی عدلیہ بھی کوئی انگڑائی نہ لے لے۔