سرسید اور مشرق و مغرب کے درمیان مکالمہ؟

446

آخری حصہ

آپ نے دیکھا، سرسید نے مشرقی و مغربی علوم کے درمیان کیسا زبردست ’’مکالمہ‘‘ کرایا ہے۔ سرسید کی تحریروں کے ان اقتباسات کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ سرسید نے اپنے طور پر تمام مشرقی علوم کو زمین میں زندہ دفن کرنے اور مغربی علوم کو ساتویں آسمان پر پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کن مغربی علوم کو؟ اس سلسلے میں پہلے آپ ایک انگریز ڈاکٹر ہنٹر کی وہ رائے ملاحظہ کیجیے جسے سرسید نے خود اپنی ایک تحریر میں ’’کوٹ‘‘ کیا ہے۔ ہنٹر نے کہا ہے:
’’کوئی نوجوان خواہ ہندو ہو خواہ مسلمان، ایسا نہیں ہے جو ہمارے انگریزی مدرسوں میں تعلیم پائے اور اپنے بزرگوں کے مذہب سے بداعتقاد ہونا نہ سیکھے۔ ایشیا کے ترو تازہ مذہب جب مغربی علوم کی سچائی کے قریب آتے ہیں جو مثل برف کے ہے، تو سوکھ کر لکڑی ہوجاتے ہیں‘‘۔
یہ اقتباس پیش کرنے کے بعد سرسید نے لکھا ہے:
’’یہ قول ڈاکٹر ہنٹر کا بالکل سچ ہے‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ221)
مزے کی بات دیکھیے کہ اس کے باوجود ڈاکٹر جعفر فرماتے ہیں کہ سرسید نے مشرق و مغرب کے درمیان مکالمہ کرایا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سرسید جن علوم کو ایشیائی مذہب ’’اسلام‘‘ کے لیے جان لیوا سمجھتے تھے انہی علوم کی تعریف میں وہ زمین آسمان ایک کیے ہوئے تھے اور انہی علوم کو انہوں نے اپنے قائم کیے ہوئے تعلیمی ادارے کی ’’جان‘‘ بنایا۔ اس کے باوجود بعض لوگ سرسید کو اسلام کا ’’مخلص سپاہی‘‘ اور مسلمانوں کا ’’محسن‘‘ کہتے ہیں۔
سرسید سے متعلق سیمینار میں ڈاکٹر جعفر صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ سرسید نے انگریزوں اور برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کا ماحول بھی پیدا فرمایا۔ ارے صاحب! آقا اور غلاموں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کہاں سے آگئی؟ اس لیے کہ آقا اور غلاموں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کا مطلب یہ ہے کہ آقا قیامت تک آقا رہے گا اور غلام قیامت تک غلام۔ غلام اگر اپنی غلامی کو سرسید کی طرح دل و جان بلکہ دل و ایمان سے قبول نہیں کرے گا تو آقا ناراض ہوگا اور پُرامن بقائے باہمی ممکن نہ ہوسکے گی۔ یعنی سرسید کی طرح ڈاکٹر جعفر بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان انگریزوں سے آزاد نہ ہوتے۔ ہم انگریزوں سے ہندوستان، اور ہندوستان سے مسلمانوں کی آزادی پر ڈاکٹر جعفر صاحب کے دکھ کو سمجھتے ہیں، لیکن اُن سے ہماری گزارش ہے کہ انگریزوں کی غلامی کی سرسیدی یا اپنی خواہش کو ’’پُرامن بقائے باہمی‘‘ جیسا عالی شان نام نہ دیں۔ ایسا کرنے سے پُرامن بقائے باہمی کے تصور کی عزت اور تقدس خاک میں مل کر رہ گیا ہے۔
ڈیلی ڈان کراچی کے مطابق ڈاکٹر جعفر صاحب نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سرسید خواتین کی تعلیم کو ترقی پسند معاشرے یا ڈاکٹر جعفر صاحب کے اپنے الفاظ کے مطابق Progressive Society کے قیام کے سلسلے میں ضروری خیال کرتے تھے۔
سرسید کی رائے کی روشنی میں دیکھا جائے تو ڈاکٹر جعفر کی یہ بات ’’علمی لطیفے‘‘ سے بھی آگے کی چیز ہے۔ یہاں تک کہ اس رائے کے لیے غلط بیانی بھی ایک ’’نرم اصطلاح‘‘ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرسید ویسے تو مغربی تعلیم کے عاشق تھے مگر وہ مسلم خواتین کے لیے اس تعلیم کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ چناں چہ لکھتے ہیں:
’’باوجودیکہ بہت سی باتوں میں میری طرف نئے خیالات منسوب کیے جاتے ہیں، لیکن عورت کی تعلیم کی نسبت میرے وہی خیالات ہیں جو ہمارے قدیم بزرگوں کے تھے‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ210)
ایک اور جگہ سرسید نے اپنے نقطہ نظر کو زیادہ وضاحت سے پیش کیا ہے، فرماتے ہیں:
’’لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عام اسکول بنانے کو، جہاں کہ عام لڑکیاں بلالحاظ اس کے کہ کس قوم و خاندان کی ہیں، چادر یا برقع اوڑھ کر یا ڈولی میں بٹھا کر بھیجی جائیں، میں پسند نہیں کرتا۔ معلوم نہیں کیسی عورتوں سے صحبت ہوگی؟ معلوم نہیں کہ کیسی لڑکیاں جمع ہوں گی؟ معلوم نہیں ان کا طرز کیا ہے؟ گفتگو کیسی ہے؟ مگر میں نہایت زور سے کہتا ہوں کہ اشراف جمع ہوکر اپنی لڑکیوں کی تعلیم کا ایسا انتظام کریں جو نظیر ہو پچھلی تعلیم کی، جو کسی زمانے میں ہوتی تھی۔ کوئی شریف خاندان کا شخص یہ نہیں خیال کرسکتا کہ وہ اپنی بیٹی کو ایسی تعلیم دے کہ ٹیلی گراف آفس میں سگنلر ہونے کا کام دے، یا پوسٹ آفس میں چٹھیوں پر مہر لگایا کرے۔ عورتوں کی تعلیم نیک اخلاق، نیک خصلت، خانہ داری کے امور، بزرگوں کے ادب، خاوند کی محبت، بچوں کی پرورش، مذہبی عقائد کا جاننا ہونی چاہیے۔ اس کا میں حامی ہوں۔ اس کے سوا کسی اور تعلیم سے بیزار ہوں‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 211)
سیمینار سے معروف نقاد اور افسانہ نگار ناصر عباس نیر نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے سرسید کے بارے میں ڈاکٹر جعفر سے بہتر تجزیہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سرسید ’’نوآبادیاتی جدیدیت‘‘ یا ان کے اپنے الفاظ میں Colonial Modernity کے حامی تھے۔ ناصر عباس نیر نے جدیدیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ’’حقیقی جدیدیت‘‘ یا True Modernity ہے اور ایک نوآبادیاتی جدیدیت یعنی Colonial Modernity ہے۔ اتفاق سے انہوں نے نوآبادیاتی جدیدیت اور حقیقی جدیدیت کے فرق کی وضاحت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی جدیدیت یہ ہے کہ انسان (کسی آسمانی ہدایت کے بغیر) اپنا فیصلہ خود کریں اور اتھارٹی کو چیلنج کریں۔ جب کہ ناصر عباس نیر کے مطابق نوآبادیاتی جدیدیت میں آپ ’’اتھارٹی‘‘ کی مرضی کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ ناصر عباس نیر کے مطابق سرسید نوآبادیاتی جدیدیت کے حق میں تھے۔ چلیے ناصر عباس نیر نے اتنا تو مانا کہ سرسید کے لیے انگریزوں کی مرضی اور مفاد ہی سب کچھ تھا۔ مگر ناصر عباس نیر نے جدیدیت کی جو تفہیم فرمائی ہے، ٹھیک نہیں ہے۔ جدیدیت ہر صورت میں نوآبادیاتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کہیں وہ سیاسی و عسکری اتھارٹی ہے اور کہیں نظریات، تصورات، خیالات اور نام نہاد تہذیب و ثقافت کی اتھارٹی ہے۔ لیکن یہ ایک الگ ہی موضوع ہے، اس پر پھر کبھی گفتگو ہوگی۔
سیمینار سے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اجمل نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے پُرجوش انداز میں فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ سرسید نے سمجھوتے کیے۔ بے شک انہوں نے سمجھوتے کیے، مگر انہوں نے ’’زمینی حقائق‘‘ کو دیکھ کر دو قدم پیچھے ہٹائے تو موقع ملتے ہی تین قدم آگے بھی بڑھائے۔ ڈاکٹر اجمل نے دعویٰ کیا کہ سرسید نے لوگوں کو بولنے کی ’’جرأت‘‘ دی۔ بدقسمتی سے ان خیالات میں علمی لطائف کیا ’’فلمی لطائف‘‘ بھی موجود نہیں۔ کیا ڈاکٹر اجمل کو معلوم ہے کہ سرسید نے کیسے سمجھوتے کیے؟ انہوں نے صحابہ کرامؓ سے اپنے زمانے تک آنے والے پورے تفسیری علم کو مسترد کردیا اور فرمایا کہ عرب کے ’’بدو‘‘ تابعین اور تبع تابعین قرآن کو سمجھے ہی نہیں۔ یہ انگریزوں کے پروٹسٹنٹ ازم کا اثر تھا۔ سرسید نے علمِ حدیث کا انکار کردیا اور اپنے طور پر قرآن اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے فہم تک پہنچانے والا سب سے بڑا دروازہ بند کردیا۔ انہوں نے قرآن کے معجزات کا انکار کیا، اور اس پر پوری امت کا ’’اجماع‘‘ ہے کہ قرآن کے کسی جزو کا منکر بھی کافر ہے۔
جیسا کہ اس کالم میں بیان ہوا کہ انہوں نے مشرق کے تمام علوم کو مسترد کردیا، یہاں تک کہ انہوں نے لکھ دیا کہ اپنی زبانوں یعنی عربی، فارسی اور اردو، سندھی کو بھول جاؤ، صرف یورپی زبانوں یعنی انگلش اور فرانسیسی کو گلے لگاؤ۔ انہوں نے جنت و دوزخ اور فرشتوں کا مذاق اڑایا۔ سوال یہ ہے کہ اتنے سمجھوتوں کے بعد ہمارے پاس کیا بچتا ہے؟ ڈاکٹر اجمل نے فرمایا کہ سرسید نے ہمیں جرأت سے بولنا سکھایا۔ جناب، انہوں نے مسلمانوں کو جرأت سے بولنا نہیں، انگریزوں کے سامنے چپ سادھنا سکھایا، انہوں نے مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی اور اس پر فخر کرنا سکھایا۔ جو شخص انگریزوں کے آگے گونگا بنا ہوا تھا وہ بھلا مسلمانوں کو جرأت سے بولنا کیسے سکھا سکتا تھا! اجمل صاحب کے دعوے کے مطابق سرسید دو قدم پیچھے ہٹتے تھے تو موقع ملتے ہی تین قدم آگے بڑھ جاتے تھے، مگر وہ اس ’’کارنامے‘‘ کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہ کرسکے اور نہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ سرسید نے ذلت، غلامی اور پسپائی کو ’’فن‘‘ نہیں ’’سائنس‘‘ بلکہ مذہب بنا ڈالا تھا۔ اُن کا تو ’’خدا‘‘ بھی ایسا ہے جو سید کو بدترین غلامی بھی اپنی رحمت کے روپ میں دکھاتا ہے۔ اللہ اکبر
سیمینار کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ تین روزہ سیمینار سے جن لوگوں نے خطاب فرمایا اُن میں سے کسی کی شہرت سیکولر فرد کی تھی، کوئی لبرل اور سابق سوشلسٹ تھا، کوئی جدیدیہ تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب کے سب سرسید کے بت کے گلے میں ہار پھول ڈال رہے تھے، صرف ڈاکٹر تحسین فراقی ایسے فرد تھے جنہیں سرسید سے ’’کچھ‘‘ اختلافات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی سرسید یا اُن کی جدیدیت کی سکھائی ہوئی ’’جرأتِ اظہار‘‘ ہے؟ ارے بھئی آپ سرسید پر سیمینار کررہے ہیں تو 20 لوگ ایسے بلائیں جنہیں سرسید سے جزوی یا کامل اتفاق ہو، لیکن سرسید پر ایک دو نہیں درجنوں ہمالیہ جیسے اعتراضات ہیں، چنانچہ پانچ سات لوگ ایسے بھی تو بلاؤ جو سرسید پر مدلل تنقید کرکے لوگوں کو بتائیں کہ سرسید اصل میں کیا تھے۔ یک طرفہ پروپیگنڈہ تو جھوٹے، مکار، علم سے لاتعلق اور خوف زدہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا سیمینار کے منتظمین کو معلوم ہے کہ سرسید نے ایک جگہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’محمد صاحب‘‘ لکھا ہے! رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام کی دو عظیم ترین ہستیوں کے بارے میں سرسید نے کیا فرمایا ہے، پڑھیے:
’’خلافت کی نسبت، بحیثیت انتظامِ ملکی کیا لکھا جائے اور کون لکھ سکتا ہے۔ میں تو ان صفات کو جو ذاتِ نبوی میں جمع تھیں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک سلطنت اور ایک قدوسیت۔ اوّل کی خلافت حضرت عمرؓ کو ملی، دوسری کی خلافت حضرت علیؓ و ائمہ اہلِ بیت کو، مگر یہ کہہ دینا آسان ہے، کس کو جرأت ہے کہ اس کو لکھے۔ حضرت عثمانؓ نے سب چیزوں کو غارت کردیا، حضرت ابوبکرؓ تو برائے نام بزرگ آدمی ہے‘‘۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ235)
یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ سرسید جس کے بارے میں جو چاہے کہیں کوئی بات نہیں، مگر سرسید پر ہونے والے سیمینار میں کوئی یہ بتانے والا بھی نہ ہو کہ سرسید ہمارے مذہب، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ہمارے صحابہؓ، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کے بارے میں کیا کچھ فرما چکے ہیں۔ کیا سرسید کا ’’مرتبہ‘‘ ہماری ہر چیز سے بلند ہے؟ ہم یہ جان کر غم میں ڈوب گئے کہ سیمینار کا انعقاد کرنے والوں میں شعبہ اردو جامعہ کراچی کی چیئرپرسن ڈاکٹر تنظیم الفردوس اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ پیش پیش تھے۔ ہم ’’You too Brutus?‘‘ کہتے ہوئے ان سے عرض کریں گے کہ اپنے مذہب، تہذیب، تاریخ اور سرسید کی نظر میں قابلِ گردن زدنی قرار پانے والے مشرقی علوم کا دفاع نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں، لیکن ’’علمی توازن‘‘ کا دفاع تو کریں۔