کسی بھی ملک میں قیادت کی تیاری اور فراہمی کے لیے طلبہ کو اہمیت حاصل ہوتی ہے جب تک پاکستان میں مستقبل کی قیادت تیار کرنے کا نظام طلبہ یونینوں کی شکل میں نافذ اور بروئے کار تھا ملک کو مرکزی اور صوبائی سطح پر قیادت بھی میسر آرہی تھی لیکن بد قسمتی سے فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے طلبہ یونینوں پر پابندی لگاکر یہ راستہ بند کردیا اب اس نرسری سے قیادت کی تیاری اور فراہمی کا کام بند ہوچکا کچھ لوگ پرانے زمانے کے ہیں یا کچھ لوگ اسلامی جمعیت طلبہ کی وجہ سے معاشرے کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ طالب علمی کے بعد انہوں نے پارٹیاں بھی بدلی ہیں اور جماعت اسلامی کے بجائے مسلم لیگ، یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کا بھی رخ کیا۔ بہت سے تحریک انصاف میں بھی نظر آتے ہیں۔ ملک کی محسن اسی طلبہ تنظیم نے گزشتہ روز کراچی میں اٹھو جوانو بدلو کراچی کے عنوان سے طلبہ کنونشن منعقد کیا اس کنونشن کے انعقاد کا مقصد محض جلسہ نہیں کرنا تھا بلکہ اس کی پشت پر ایک ٹھوس منصوبہ ہے۔ ایک تحریک ہے، کراچی میں نہیں پورے ملک میں متبادل قیادت کی فراہمی ہے جب تعلیمی اداروں میں یونین کام کرے گی تو مستقبل کے معمار کو معمار بننے کی تربیت ملے گی اس کنونشن نے اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے کچھ نہیں مانگا ہے۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے تعلیمی بجٹ میں کرپشن ختم کرنے کے لیے نظام وضع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سب سے اہم بات ملک بھر میں یکساں نصاب اور یکساں نظام تعلیم کا مطالبہ کیا ہے۔ کراچی کے تعلیمی اداروں کی گرانٹ بڑھانے اور حالت زار بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہوسکتا ہے جماعت اسلامی سے تعلق کی وجہ سے بہت سے حلقوں میں اس سے اختلاف کیا جائے لیکن اس کے مطالبات سے تو کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا۔ خصوصاً پیپلزپارٹی جس کے چیئرمین سینیٹ تو طلبہ یونینوں کی بحالی کا بار بار اعلان کرچکے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مستقبل کے ان معماروں کی پکار کو سنیں اور اپنے ملک کا مستقبل محفوظ بنائے۔