اسلامی حکومت کے قیام کی ضرورت

692

171030-04-
امام کعبہ جناب صالح بن عبداﷲ نے کہاہے کہ کافر مرتد یا واجب القتل قرار دینے کا اختیار اسلامی حکومت کو ہے۔ جہاد و قتال حاکم کے تابع ہو کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ کوئی مسلمان اپنے طور پر اسلحہ اٹھائے گا تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ اختلاف رائے کو مجادلے کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔ انتہا پسندی کا خاتمہ باہمی اتحاد ہی سے ممکن ہے۔ جناب امام صاحب نے بجا فرمایا اسلامی ممالک میں فساد کا سبب بھی یہی ہے کہ بہت سے لوگ آدھی پونی معلومات اور کم علمی کی بنا پر جوش میں آکر لوگوں کے ارتداد، قتل اور کفر کے فتوے صادر کردیتے ہیں۔ جہاد اور قتال بھی حاکم کے تابع رہ کر ہی کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ شریعت اسلامیہ ارتداد اور کفر کو بڑی گہرائی کے ساتھ واضح کرچکی ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی شخص اٹھے اور کسی پر ارتداد کا الزام لگاکر واجب القتل قرار دے دے۔ اس کا معاملہ عدالت میں جائے گا۔ حکومتی ذمے داران جو قاضی اور جج ہیں شواہد اور ثبوت اکٹھے کریں گے۔ ملزم سے سوالات کیے جائیں گے، اقرار و انکار کی نوعیت دیکھی جائے گی، اس کی ذہنی حالت بھی دیکھی جائے گی اس کے بعد فیصلہ حکومت اسلامیہ ہی کرے گی۔ جناب صالح بن عبداﷲ کے ارشا دات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے جو باتیں بھی کی ہیں ان کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پہلا نکتہ بیان کیا ہے کہ کافر، مرتد یا واجب القتل قرار دینے کا اختیار اسلامی حکومت کو ہے۔ سعودی عرب کے بارے میں تو وہ پورے یقین سے کہتے ہیں کہ ان کی حکومت اسلامی حکومت ہے وہاں کے قوانین تادم تحریر تو اسلامی ہی ہیں لیکن تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں اس لیے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے اس بیان کے پہلے نکتے کی بنیادی شرط اسلامی حکومت ہے۔ اور کم از کم پاکستان میں تو ایسی حکومت قائم نہیں۔ امام کعبہ کہتے ہیں کہ جہاد و قتال حاکم کے تابع ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ شرعاً یہ بات بالکل درست ہے لیکن جب حاکم جہاد و قتال کے احکامات ثابت ہوجانے کے باوجود جہاد کا حکم نہ دیں تو کیا کیا جائے۔ امام کعبہ کو اس حوالے سے بھی رہنمائی دینی چاہیے تھی۔ انہیں یہ بھی بتانا چاہیے تھ اکہ جب اسلامی حکومت موجود ہی نہ ہو تو کفر اور ارتداد کے فتوے چوراہوں پر ہی دیے جائیں گے۔ اس قسم کی صورتحال کا تدارک یہی ہے کہ ملک میں اسلامی حکومت قائم کی جائے جو لوگ حکومت میں آجائیں وہ خود عمل کرتے ہوں یا نہیں اپنے ملک کے اندر تو اسلامی قوانین نافذ کریں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، خیرات، صدقات یہ سب ذاتی اور انفرادی اعمال ہیں اگرچہ انفرادی ہیں لیکن حکومت کے ذمے دار کو ان کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ تاہم اگر وہ اس میں کمزور ہے تو یہ اس کا معاملہ ہے عام قوانین کو تو اسلامی اصولوں کے مطابق نافذ کیا جانا چاہیے لیکن جس ملک میں آکر امام کعبہ نے یہ اصول بیان کیے ہیں یہاں ایسا نہیں ہے۔ یہاں تو غریب کے لیے سخت ترین قوانین ہیں اور حکمران طبقے کے لیے الگ اور بعض طبقات ایسے بھی ہیں جن کے لیے کوئی قانون ہی نہیں وہ خود قانون ہیں۔ امام کعبہ کا اشارہ یقیناًپاکستان میں کچھ گروپوں کی جانب سے جہاد و قتال کے حکم اور اعلان کی طرف ہوگا اور ان کا جواب بالکل بجا ہے لیکن اگر پڑوسی ملک میں کفار کی جانب سے مسلمانوں پر مظالم کی انتہا ہوجائے اور اسلامی ملک کے حکمران خاموش رہیں ان کی فوج حرکت میں نہ آئے تو کوئی تو یہ کام کرے گا کیونکہ قرآن و حدیث تک تو پہنچ صرف حکمرانوں کی نہیں ہے۔ اس کے احکامات بھی خاص حکمرانوں تک محدود نہیں ہیں۔ اگر حکمرانوں کو کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم نظر نہیں آتے تو عام مسلمان کیا کرے۔ اگر قرآن حکم دیتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ جو لوگ کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور مدد کے لیے پکار رہے ہیں تو تم ان کی مدد کیو نہیں کرتے۔ اﷲ کے نبیؐ نے تو امت مسلمہ کو امت واحدہ قراردیا ہے مثال دی ہے کہ ایک جسم کی مانند ہے ایک حصے کو تکلیف ہو تو دوسرا محسوس کرتا ہے لیکن میانمر کی ظالم حکومت لاکھوں برمی مسلمانوں کو ملک بدر کررہی ہے، ان کو قتل کیا جارہاہے ان کے سروں کو کاٹا جارہاہے، انہیں پڑوسی ملک بنگلا دیش دھکیل دیا گیا جس نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا۔ بھارت بھی قبول کرنے کو تیار نہیں اگر پاکستان سعودی عرب یا کوئی اور ملک کچھ لوگوں کو پناہ دے دیتا ہے تو یہ تو ظالم کی ہمت افزائی ہے۔ ایسے میں عام مسلمان کے لیے کیا حکم ہے۔ کیا ظالم کو ظلم کی اجازت دی جائے اور وہ چندے جمع کرکے کپڑے، خوراک اور دوائیں پہنچاتے رہیں؟؟ یہی سوال افغانستان، فلسطین، شام اور دیگر علاقوں کے مظلوم مسلمانوں کے حوالے سے بھی ہے۔ ان کے لیے بھی احکام سامنے آنے چاہییں۔ امام کعبہ نے جو باتیں کی ہیں ان پر کسی قسم کے مباحثے شروع کرنے کے بجائے اس کے اہم ترین نکتے اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سب کو متحد اور متفق ہوجانا چاہیے کیونکہ جو کچھ بھی کرنا ہے اسلامی حکومت کو کرنا ہے۔ اگر حکومت اسلامی ہوگی تو اس کی سوچ، فکر، احکامات، اقدامات بلکہ اس کے عمال بھی اور اعمال بھی اسلامی ہوں گے لیکن حکومت ہی اسلامی نہیں ہوگی تو اس کے جج، قاضی نہیں ہوں گے اس کی پولیس محافظ نہیں چور ہوگی اس کی فوج سرحدوں کی حفاظت کے بجائے کچھ اور کام کررہی ہوگی۔ اس کے وزیر کمیشن بٹورنے میں لگے ہوں گے اور اسلامی حکومت نہیں ہوگی تو ارکان اسمبلی بھی لوٹ مار ہی کریں گے۔ ایسے حالات میں جس بات کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ یہی ہے کہ جو لوگ دین کے احکام کو نافذ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں وہ کوئی چیز خود نافذ کرنے کے بجائے اس ملک میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی جد وجہد کریں۔ جس روز وہ ایک اسلامی حکومت قائم کرلیں گے آدھے مسائل تو اسی روز حل ہوجائیں گے۔ اس کام میں زیادہ ذمے داری ان لوگوں پر ہے جو دین کا علم بھی رکھتے ہیں۔ ملک میں حکومت سازی کے عمل سے دور نہ رہیں۔ اگر عالم اسلام کے مسائل کا حل اتحاد امت ہے تو پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل بھی اچھے لوگوں کے اتحاد میں ہے۔ انتشار سے بچیں سب ایک نکتے پر جمع ہوں کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم کرنی ہے۔