!کہانی پلی بارگین اور سابق چیئرمین کی

283

انتظامی ادارے ریاست کو فعال اور اسے صحیح خطوط پر چلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں، اگر ادارے نہ ہوں تو ملک میں ہڑ بونگ مچ جائے اور کوئی نظم و نسق باقی نہ رہے۔ پاکستان میں قومی احتساب کا ادارہ، نیب اس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا کہ قومی دولت لوٹنے والے کرپٹ عناصر کو احتساب کے شکنجے میں کسا جائے، ان سے لوٹی ہوئی دولت اگلوائی جائے اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر انہیں عبرتناک سزا دی جائے۔ لیکن ہوا یہ کہ نیب بن تو گیا لیکن بنانے والوں کی بدنیتی اسے لے ڈوبی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس ادارے کو سیاسی مخالفین پر دباؤ ڈالنے، انہیں ڈرانے، دھمکانے اور بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ جو سیاسی حریف دباؤ میں نہ آئے ان پر تو احتساب کی تلوار چلی اور خوب چلی، انہیں نشان عبرت بنا کر رکھ دیا گیا لیکن جن سیاستدانوں نے فوجی آمر کے آگے سرنڈر کردیا، اس کی غلامی قبول کرلی، ان کے لیے ان کی تلوار کند ہوگئی اور ان پر انعام و اکرام کے دروازے کھول دیے گئے۔ اُس زمانے میں انتہائی بدعنوان اور بدنام کرپٹ بیورو کریٹس سے بھی کوئی تعریض نہ کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اپنی بقا کے لیے فوجی آمریت کا کل پرزہ بن چکے تھے۔
جنرل پرویز مشرف کے بعد سول حکومت بحال ہوئی اور پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو اسے احتساب سے ویسے ہی چڑ تھی، اس کے دور میں نیب کو فعال نہ ہونے دیا گیا بلکہ ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ نیب میں موجود زرداری کے خلاف سارے مقدمات کھڈے لائن لگادیے جائیں۔ زرداری یوں بھی پاکستان کے صدر بن کر احتساب سے بالا تر ہوچکے تھے، پھر نیب پر بُرا وقت وہ آیا جب اس پر چودھری قمرالزماں بطور چیئرمین مسلط کردیے گئے، ان کا تقرر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ملی بھگت کا نتیجہ تھا، یہ دونوں پارٹیاں جانتی تھیں کہ اس شخص کا اپنا دامن کرپشن سے پاک نہیں ہے اور اس کے ساتھ ’’کچھ لو، کچھ دو‘‘ کے اصول پر بڑی آسانی سے معاملہ کیا جاسکتا ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ چودھری قمر الزماں کے دور میں ’’پلی بارگین‘‘ کا بڑا چرچا ہوا جسے عرف عام میں مک مکا کا قانون کہا جاتا ہے۔ یعنی دھڑلے سے کرپشن کرو، جی بھر کے قومی دولت لوٹو اور پکڑے جاؤ تو لوٹی گئی دولت کا پانچ دس فی صد دے کر بری ہوجاؤ اور سرکاری منصب پر بحال ہو کر پھر سے اپنا دھندا شروع کردو۔ اس پلی بارگین کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وصول شدہ رقم کا بیس فی صد نیب اپنا حق محنت سمجھ کر کاٹ لیتا تھا جو نیب کے چیئرمین سے لے کر دیگر عہدیداروں میں ’’حصہ بقدرجثہ‘‘ کے اصول پر تقسیم ہوتا تھا اور یہی وہ کشش تھی جس نے نیب کے چیئرمین اور اس کے عہدیداروں کو پلی بارگین کا اسیر بنا رکھا تھا۔
چودھری قمرالزماں کے دور میں کرپٹ سیاستدانوں پر بہت کم ہاتھ ڈالا گیا، ان کے میگا کرپشن اسیکنڈلز فائلوں میں دبے پڑے رہے کیوں کہ چیئرمین کو معلوم تھا کہ سیاستدانوں پر ہاتھ ڈالیں گے تو بھانیٹر مچ جائے گا اور وہ ایک دوسرے کو تحفط دینے کے لیے اس کے خلاف متحد ہوجائیں گے اور مال بنانے والا کارخانہ اس کے ہاتھ سے چھین لیا جائے گا۔ چناں چہ اس نے سیاستدانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کرپٹ سرکاری ملازمین کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ اربوں کی کرپشن کرنے والے بیورو کریٹس کا سراغ لگایا گیا اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرکے انہیں بلیک میل کیا گیا اور پلی بارگین کے ذریعے ان سے مک مکا کرکے دام کھرے کرلیے گئے۔ اس صورت حال پر عدالتیں بھی چیخ اُٹھیں۔ عدالت عظمیٰ نے نیب کو کرپشن کے لائسنس جاری کرنے والا ادارہ قرار دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اربوں کی کرپشن کرنے والوں کو پلی بارگین کے ذریعے چند کروڑ لے کر چھوڑا جارہا ہے تا کہ وہ واپس جا کر پھر اپنے دھندے سے لگ جائیں۔ عدالت عظمیٰ میں جب بھی نیب کے حوالے سے کوئی مقدمہ زیر سماعت آیا تو عدالت عظمیٰ نے نیب کی کارکردگی پر نہایت سخت اور منفی ریمارکس دیے۔ چیئرمین نیب نے اس منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے بار بار یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے کرپٹ عناصر سے 250 ارب روپے بازیاب کراکے قومی خزانے میں جمع کرایا ہے لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اس پلی بارگین کے نتیجے میں انہوں نے قومی خزانے کو کتنے کھرب کا نقصان پہنچایا ہے۔ اربوں روپے کے مضاربہ اسکینڈل میں یہ خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ نیب کے بعض عہدیدار ملزموں سے بیس کروڑ کا مطالبہ کررہے تھے تا کہ یہ رقم لے کر کیس کو کھڈے لائن لگادیا جائے لیکن بات نہ بن سکی۔
چودھری قمرالزماں کا دور ختم ہوا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ’’نیک نامی‘‘ سمیٹ کر واپس چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ ایک ریٹائرڈ جج جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تقرر عمل میں آگیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان کا نام اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پیش کیا تھا جس سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اتفاق کیا اور یوں حکومت اور اپوزیشن کی اتفاق رائے سے نیب کا نیا چیئرمین مقرر ہوگیا۔ نئے چیئرمین کی شہرت ایک نیک نام جج کی ہے وہ ایبٹ آباد تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کرچکے ہیں جس میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے امریکی کمانڈو ایکشن کی حقیقت کا پتا لگانا مقصود تھا۔ جسٹس جاوید اقبال نے اس واقعے کی تحقیقات کے بعد کمیشن کی رپورٹ حکومت کو پیش کردی لیکن یہ رپورٹ ابھی تک شائع نہیں کی گئی، ان کا مطالبہ ہے کہ اسے شائع کیاجائے وہ لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق کمیشن کے بھی سربراہ رہے ہیں ان کی کوششوں سے متعدد افراد بازیاب بھی کرائے جاچکے ہیں لیکن یہ مسئلہ بدستور حل طلب چلا آرہا ہے۔ اب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب کی چیئرمین شپ قبول کی ہے تو انہیں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے وہ ان چیلنجوں سے جس انداز میں نمٹیں گے اسی سے ان کی دیانت، امانت، اصول پسندی اور حوصلہ مندی کا معیار متعین ہوگا۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ وہ نیب میں پلی بارگین عرف مک مکا کا قانون ختم کریں جس کی عدالت عظمیٰ بھی مخالفت کرچکی ہے، پھر کرپشن کے میگا اسکینڈلز کو نمٹائیں، وزرا کو پاکستان میں کرپشن کا بادشاہ کہا جاتا ہے لیکن نیب کی احتساب عدالت انہیں بدعنوانی کے تمام مقدمات میں بری کرکے ان پر صادق و امین کا ٹھپالگا چکی ہے، کیا یہ درست ہے؟ نئے چیئرمین کو ان کے خلاف تمام مقدمات ازسر نو کھولنے ہوں گے، اسی طرح شریف فیملی کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کا کیس فوری توجہ چاہتا ہے نئے چیئرمین نیب عرصہ امتحان میں ہیں۔ دیکھیے وہ اس امتحان میں کتنا پورا اترتے ہیں۔