الیکشن ایکٹ 2017ء اور مسئلہ ختم نبوت

859

علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کا ایک وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا، وہ کہتے ہیں: قادیانیوں اور احمدیوں کی آئینی حیثیت سے متعلق الیکشن ایکٹ 2017 میں ’’چیف ایگزیکٹو آرڈر 2002 بابت انعقاد عام انتخابات‘‘ کی دفعہ 7B اور 7C کو حذف کرکے اس کے ذریعے دستورِ پاکستان میں ارتدادِ قادیانیت کے آرٹیکل کو منسوخ کردیا گیا ہے، مجھے اس بیان پر حیرت ہوئی۔ دستوری پوزیشن یہ ہے کہ کوئی بھی عام قانون آئین کے کسی آرٹیکل کو منسوخ نہیں کرسکتا، کیوں کہ آئین ملک کے تمام قوانین پر بالادست ہے اور اگر قانون میں کوئی بات خلافِ آئین ہے، تو عدالت عظمیٰ میں پٹیشن دائر کر کے اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ عام قانون کی منظوری کے لیے رائے شماری کے وقت پارلیمنٹ کے حاضر ارکان کی سادہ اکثریت کافی ہے، جب کہ آئین کے کسی آرٹیکل میں ترمیم یا تنسیخ کے لیے پارلیمنٹ کے کل ارکان کی کم از کم دو تہائی اکثریت یعنی قومی اسمبلی کے 228 اور سینیٹ کے 70 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے، پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عام قانون دستور یا اُس کے کسی آرٹیکل کو منسوخ کردے۔ عام قانون کی صورتِ حال تو یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کی متنازع دفعہ 203 میں ترمیم کو سینیٹ نے 37 کے مقابلے میں 38ارکان کی حمایت سے منظور کیا ہے اور اب وہ ملک کا قانون ہے۔ اس سے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 میں سیاسی جماعت کی سربراہی کے لیے عائد ایک بندش کو اٹھا لیا گیا ہے۔
آئین میں منکرینِ ختمِ نبوت کی حیثیت مستقل طور پر متعیّن ہے، اصل مسئلہ اس کے مکمل نفاذ کا ہے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کے اقرار نامے میں ختمِ نبوت کا حلفیہ اقرار اس لیے ضروری ہے کہ کوئی قادیانی مسلمان کے بھیس میں پارلیمنٹ کا امیدوار نہ بن سکے، اگرچہ اخلاقی معیارات کے اعتبار سے ہم تنزّل کے دور سے گزر ر ہے ہیں اور حال ہی میں بزعم خویش سب سے زیادہ دیانت وصداقت کے حامل پارٹی سربراہ نے عدالت عظمیٰ میں ایک ہی کیس میں بیان بار بار تبدیل کیے، جب کہ ہر شخص کو معلوم ہے کہ عدالت عظمیٰ میں جمع کردہ بیان بھی حلفیہ ہی ہوتا ہے، پس جھوٹے حلف نامے کے امکان کو یکسر ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ ختمِ نبوت کی بابت یہی اقرار نامہ پاسپورٹ، قومی شناختی کارڈ، مسلح افواج میں شمولیت اور دیگر مواقع پر درکار ہوتا ہے۔
لہٰذا ہر بات کوپ وری دیانت کے ساتھ بیان کرنا چاہیے اور اختلاف کا حق استعمال کرتے ہوئے بھی صداقت ودیانت کا عَلم بلند رکھنا چاہیے، کیوں کہ اصل عدالت آخرت میں لگے گی، جہاں حقائق پر فیصلہ ہوگا، ہماری من پسند تعبیرات وتشریحات کام نہیں آئیں گی۔ ایک غلطی یہ بھی کی جارہی ہے کہ پوری پارلیمنٹ کو جوابدہ بنانے کے بجائے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہمیں بتایا جائے یہ کام کس نے کیا ہے، ان تمام اصحابِ علم وفضل کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ کام پوری پارلیمنٹ نے کیا ہے۔ کوئی وزیر، سیکرٹری یا سیکشن آفیسر دستوری طریق�ۂ کار کے بغیر ذاتی حیثیت میں کوئی قانون نہیں بنا سکتا، لہٰذا اس غفلتِ مجرمانہ کی ذمے داری پوری پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔
اب ہم نفسِ مسئلہ کی طرف آتے ہیں:
الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017ء پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر تیار اور منظور کیا ہے۔ اس میں انتخابات سے متعلق مختلف آٹھ قوانین کو یکجا کردیا گیا ہے۔ لیکن یہ کام انجام دیتے وقت سب نے غفلت کا ارتکاب کیا، اس میں سے ایک فروگزاشت کا ازالہ پارلیمنٹ نے اقرارِ ختمِ نبوت کے شروع میں ’’میں صدقِ دل سے حلفیہ اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کر کے کردیا ہے، فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِک۔ انتخابی قوانین کو مربوط کرنے کے لیے بہت سی دفعات کو نئے قانون میں شامل کیا گیا ہے اور غیر ضروری دفعات کو حذف کردیا گیا ہے، یہ حذفیات (Deletions) نئے قانون کی دفعہ 241 میں شامل ہیں۔ اس کی ذیلی دفعہ (f) میں چیف ایگزیکٹیو آرڈر نمبر 7 بابت انعقادِ عام انتخابات 2002 کی دفعہ 7B و 7C کو مستثنیٰ کرتے ہوئے بقیہ تمام ذیلی دفعات کوحذف کردیا گیا ہے، الغرض مندرجہ ذیل دو دفعات بدستور نافذ العمل ہیں:
احمدیوں وغیرہ کی حیثیت غیر متبدّل رہے گی:
دفعہ 7B: ’’باوجودِیکہ کوئی چیز الیکٹورل رول ایکٹ 1974، انتخابی فہرست 1974 یا کوئی بھی قانون جو تاحال مؤثر ہے، بشمول ان فارمز کے جو مشترکہ انتخابی بنیاد پر یا انتخابی فہرستوں کے لیے مقرر کیے گئے ہیں ’’حکم نامہ انعقادِ عام انتخابات 2002 کے آرٹیکل 7پر عمل در آمد کرتے ہوئے (چیف ایگزیکٹیو آرڈر نمبر7 آف 2002)، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے پکارتے ہیں یا جو شخص سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی حتمی اور قطعی ختمِ نبوت اور اللہ تعالیٰ کا سب سے آخری نبی ہونے پر یقین نہیں رکھتا یا کسی بھی تشریح، تاویل یا توجیہ کے اعتبار سے، خواہ وہ کیسی بھی ہو، سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے (باطل) مدّعیِ نبوت کو نبی یا مذہبی مُصلح مانتا ہے، اُس کی حیثیت وہی رہے گی جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے دستور 1973 میں طے کی جاچکی ہے‘‘۔
دفعہ 7C: ’’اگر کسی شخص نے اپنا اندراج ووٹر کی حیثیت سے کر رکھا ہے اور انتخابی فہرستوں کے قانون مجریہ 1974 کے تحت نظرِ ثانی کی مُجاز اتھارٹی کے سامنے دس دن کے اندر اس کے اہل ووٹر ہونے کے بارے میں عام انتخابات کے انعقاد کے حکم نامے (دوسری ترمیم) مجریہ 2002 کے تحت اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ یہ شخص مسلمان نہیں ہے، تو نظر ثانی کی مُجاز اتھارٹی اس شخص کو ایک نوٹس جاری کرے گی کہ وہ پندرہ دن کے اندر اس کے سامنے پیش ہو اور اس سے مطالبہ کرے گی کہ وہ ایک ایسے اقرار نامے پر دستخط کرے جس سے واضح ہو کہ وہ سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی حتمی اور قطعی ختمِ نبوت پر یقین رکھتا ہے، انتخابی قوانین مجریہ 1974 میں اس کے لیے فارم iv تجویز کیا گیا ہے۔ دریں صورت کہ وہ مذکورہ بالا اقرار نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیتا ہے، اُسے غیر مسلم سمجھا جائے گا اور اس کا نام مخلوط فہرست سے حذف کردیا جائے گا اور ووٹرز کی ضمنی فہرست میں اسی انتخابی حلقے میں غیر مسلم کی حیثیت سے شامل کردیا جائے گا۔ دریں صورت کہ وہ ووٹر (جس کے مسلم ہونے پر اعتراض کیا گیا ہے) مُجاز اتھارٹی کی جانب سے نوٹس کی تعمیل کے باوجود حاضر نہیں ہوتا، تو اس کے بارے میں (غیر مسلم ہونے کا) فیصلہ اس کی عدم موجودگی میں (an ex-parte) یک طرفہ طور پر جاری کردیا جائے گا‘‘۔
آپ نے مطالعہ فرمالیا کہ دفعہ 7B کا مقصد ووٹر کے لیے سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی حتمی اور قطعی ختمِ نبوت کا اقرار، قادیانیوں اور منکرینِ ختمِ نبوت اور خاتم النبیین والمرسلین سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کے بعد ہر جھوٹے مدعیِ نبوت کو نبی یا مصلح مذہب یا محض مسلمان ماننے والوں کے غیر مسلم ہونے کا اقرار شامل ہے۔ دفعہ 7C کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم دھوکے سے اپنا نام مسلم ووٹرز کی فہرست میں درج کرادے، تو دس روز کے اندر مُجاز اتھارٹی کے سامنے ثبوت وشواہد کے ساتھ چیلنج کر کے اس کا نام مسلم ووٹرز کی فہرست سے نکال کر اُسی حلقۂ انتخاب میں غیر مسلم ووٹرز کی فہرست میں شامل کیا جاسکے گا۔
فنی اعتبار سے وزارتِ قانون یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم نے انتخابی قوانین مجریہ 2002 کی ذیلی دفعہ 7B اور 7C کو حذف نہیں کیا اور یہ بدستور رائج الوقت قانون ہے، اس حد تک یہ بات درست ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان دفعات کا متن ’’الیکشن ایکٹ 2017‘‘ میں کہیں بھی درج نہیں ہے، اس قانون نے سابق انتخابی قوانین کو منسوخ کرکے ان کی جگہ لے لی ہے، اب آئندہ قانون کی کتاب میں یہی انتخابی قانون درج رہے گا، جس میں 2002 کے انتخابی قانون کی دفعہ 7B اور 7C کا متن شامل نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حل کی صحیح صورت یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 37 کے آگے ذیلی دفعہ 37A کا اضافہ کردیا جائے اور اس میں سابق دفعہ 7B کے متن کو مِن وعَن درج کردیا جائے، اسی طرح اس مقام پر دفعہ 37B کا اضافہ کر کے اس میں سابق دفعہ 7C کا متن بعینہٖ شامل کردیا جائے۔ مزید یہ کہ اعتراض اٹھانے کے لیے دس دن کی تحدید ختم کردی جائے، کیوں کہ کسی کی جعلسازی آشکار ہونے کے لیے مدت متعین نہیں کی جاسکتی۔ ہماری اس تجویز پر عمل کرنے سے سارے تنازعات ختم ہوجائیں گے، اس ترمیمی ایکٹ کو قانون سازی کے مسلّمہ طریقۂ کار کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانا لازمی ہوگا۔
ہمارے مذہبی طبقات کی دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے محض حکومتِ وقت پر چاند ماری کرنے کے بجائے پوری پارلیمنٹ اور اُس میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں پر یکساں دباؤ ڈالیں، تاکہ یہ مسئلہ بآسانی حل ہوجائے۔ ان قانونی موشگافیوں کو سمجھنے کے لیے جماعت اسلامی کے جنابِ اسد اللہ بھٹو ایڈوکیٹ نے ریکارڈ فراہم کر کے میری معاونت کی، اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ میرے اس نتیجۂ فکر سے وہ بھی متفق تھے کہ 1973کے دستور یا اُس کے کسی آرٹیکل کو منسوخ کرنے کا الزام درست نہیں ہے، البتہ اس کے تقاضوں کو پاکستان کے دستوری اور قانونی نظام میں سمونے کے سلسلے میں بہت سا کام باقی ہے۔