مزاحمت کا واضح پیغام؟

483

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے جنوبی ایشیا کے دورے سے واپسی کے بعد اپنی قوم کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے انہیں امریکا کی یک طرفہ پالیسی کی مزاحمت کا واضح پیغام ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بتایا گیا ہے کہ وہ امریکی پالیسی کی حمایت کرے بصورت دیگر امریکا پاکستان کے بغیر ہی اپنی حکمت عملی ترتیب دے گا۔ یوں لگتا ہے کہ ریکس ٹلرسن خاصے سمجھدار آدمی ہیں جو پاکستان کی طرف سے مزاحمت کے اشاروں کو سمجھ گئے۔ ٹلرسن کے لیے پہلا اشارہ وہی تھا جب وہ نورخان ائربیس پر اترے تو ان کے استقبال کے لیے ماضی کی روایت کے برعکس وزیر خارجہ ایک لاؤ لشکر کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ وزرات خارجہ کے ایک افسر ان کا روکھا پھیکا استقبال کر رہے تھے۔ ان کے لیے دوسرا اشارہ وہ ملاقات تھی جس میں ایک میز کے گرد امریکی وفد تھا اور اسی میز کے دوسری جانب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور جنرل قمر جاوید باجوہ تھے۔ امریکیوں کی خواہش تھی کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف سے الگ الگ ملاقات ہو گی تو وزیر اعظم اپنی بے بسی کا رونا روئیں گے سول ملٹری تعلقات کی نوحہ خوانی کریں گے۔ سول قیادت کو مضبوط کرنے کے لیے امداد طلب کریں گے اور جنرل قمرجاوید سیاسی قیادت کی شکایتیں لگائیں گے اور اس طرح امریکا یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ پالیسی متفقہ نہیں، مگر ٹلرسن سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک میز کے گرد دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے پیغامات سے ٹلرسن نے یہ درست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان اب امریکا کا بے دام غلام بننے کو تیار نہیں بلکہ ٹھونسی جانے والی کسی بھی ناپسندیدہ پالیسی کی مزاحمت کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکا کے ساتھ پاکستان کے معاملات مفاہمت اور سرینڈر کے دور میں مثالی اور اچھے نہیں رہے۔ امریکا ڈرون مار کر پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کرتا رہا۔ پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرنے سے گریزاں رہ کر یک طرفہ کارروائیاں کرتا رہا۔ اب جب کہ پاکستان نے سارا دباؤ جھٹک کر مزاحمت کا پیغام دیا ہے تو اس سے کوئی زیادہ فرق پڑنے والا نہیں۔ امریکا پہلے بھی دشمنی پر آمادہ تھا اب اس کا میعار کچھ اور بلند ہوگا۔ پاکستان کو بھارت کے مطالبات امریکی زبان میں بیان کرنے اور بھارتی مفاد کی پالیسی کو امریکی مفاد کا جامہ پہنا کر پیش کرنے والی اس پالیسی کی مزاحمت کا راستہ یکسوئی سے اپنانا چاہیے۔ اس دوران آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اعلان کیا کہ فوجی جوانوں نے کنٹرول لائن پر جاسوسی کی غرض سے استعمال ہونے والا ڈرون مار گرایا ہے۔ یہ ڈرون چکری سیکٹر میں گردش کے دوران نشانہ بنا اور اس کا ملبہ بھی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ ڈرون طیارے میں موجود وڈیوز اور تصاویر کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کے مطابق امریکا کو کہا گیا کہ بھارت کو ڈرون طیارے فراہم نہ کیے جائیں اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔
پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان سیز فائر کے باوجود کنٹرول لائن گزشتہ کچھ عرصہ سے کشیدگی اور کشمکش کا محور بن کر رہ گئی ہے۔ بھارتی فوج آزادکشمیر کے کئی علاقوں پر بلا اشتعال فائرنگ کرکے روزانہ کئی افراد کو شہید یا زخمی کر رہی ہے۔ دونوں طرف کی افواج کے مابین بھی خوں ریز تصادم کی خبریں آئے روز منظر عام پر آتی ہیں۔ گزشتہ برس بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر ہی سرجیکل سٹرائیکس کا دعویٰ بھی کیا گیا جس کی قلعی پاک فوج نے میڈیا کو علاقے کا دورہ کرانے کے بعد کھول کر رکھ دی تھی۔ اب اس کشیدگی میں ڈرون طیارے کا استعمال اور اسے مارگرائے جانے سے ایک نیا باب شروع ہو گیا ہے۔
بھارت اس خطے میں ’’چھوٹا امریکا‘‘ بننے کی کوششیں کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیوں کے دل میں امریکا کا ڈرون استعمال کرنے کا شوق چرایا ہے۔ پاک فوج نے اس ڈرون کو ملبہ میں بدل کر بھارت کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ خود کو امریکا سمجھنے کی غلط فہمی میں نہ رہے۔ بھارت کے لیے پاکستان کے پاس واحد اور آخری آپشن ’’اینٹ کا جواب پتھر‘‘ ہے۔ بھارت کی اپنی حیثیت اور طاقت کیا ہے یہ چین کے ساتھ دوکلام تنازعے میں دیکھ لیا گیا ہے البتہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجنے لگتی ہے جب بھارت امریکی ہلہ شیری کے ساتھ پاکستان کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی ٹیکنا لوجی کا سہارا لے کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور امریکا بھی اس کی ناز برداریاں کر کے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کر تا ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں پاکستان کے لیے امریکا اور بھارت میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت کنٹرول لائن پر جارحیت کی منصوبہ بندی کر رہا ہے مگر شاید اسے انداز نہیں کہ بھارت کا مقابلہ ایک بدلے ہوئے پاکستان سے ہے۔ وہ پاکستان جس نے بقول چودھری شجاعت حسین اپنا ایٹم بم شب برات کو پھوڑنے کے لیے نہیں بلکہ ایک حقیقی خطرے کے ڈیٹرنس کے طور پر تیار کیا ہے۔
امریکا کے جنگ جو حکمران چین کی مخالفت میں اندھے ہو کر پاکستان اور بھارت کے درمیان توازن قائم اور برقرار رکھنے میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں جس سے جنوبی ایشیا میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کشیدگی کو موجودہ مراحل میں ہی روکا نہ گیا تو اس خطے پر خطرات کے بادل یونہی منڈلاتے رہیں گے اور خطے کی اقتصادی ترقی بھی کشیدگی کی ایک ہوا کے ایک جھونکے کے رحم وکرم پر رہے گی۔ پاکستان کو نظر انداز کرکے اپنی پالیسی نافذ کرنے کی بات سے سردست یہی نتیجہ نکلتا ہے امریکا بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنائے گا اور ہر دو صورتوں میں ڈرون کو ایک محفوظ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔