وفاقی وزیر داخلہ جناب احسن اقبال سمیت کئی وزرا بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی خفیہ ہاتھ، کوئی قوت، کوئی ادارہ جمہوری نظام تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اب وزیر داخلہ نے پھر کہاہے کہ خفیہ ہاتھ سازش کررہاہے۔ عوام اس مرتبہ جمہوری نظام تباہ کرنے کی روایت توڑ دیں گے، وہ اپنے مستقبل اور ملک کی ترقی پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ وزیر داخلہ نے بڑی ہمت کرکے اعتراف کیا کہ جنرل ضیا کے مارشل لا، بے نظیر بھٹو کی برطرفی اور یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے کی غلطی میں ہم سب شریک تھے۔ یہ بڑی بات ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کو اس کا ادراک ہے کہ کوئی خفیہ ہاتھ جمہوری نظام کو تباہ کرنا چاہتا ہے لیکن اب ان کی ذمے داری مزید بڑھ گئی ہے کہ جب ان کے علم میں یہ ہے کہ کوئی سازش کررہاہے تو انہیں اس سازشی کو بے نقاب بھی کرنا چاہیے۔ احسن اقبال نے یہ جو کہاہے کہ اب عوام ایسی روایت کو توڑ دیں گے تو اس پر فی الحال یقین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جس ہاتھ کو وہ خفیہ کہہ رہے ہیں وہ یقیناًعدلیہ نہیں ہے وہ نیب اور ایف آئی اے بھی نہیں ہے۔ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بھی نہیں ہے۔ باقی جو چیز بچتی ہے اور جس میں یہ طاقت ہے کہ جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دے وہ پاک فوج ہے۔ اور وہ بار بار یہ کام کرچکی ہے۔ ممکن ہے جمہوری نظام الٹنے کی سازش خفیہ ہو لیکن جب فوج جمہوریت کی بساط لپیٹتی ہے تو علی الاعلان ہی لپیٹتی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاک فوج واقعی ایسا کرنے جارہی ہے؟؟ احسن اقبال صاحب نے عوام سے جو توقعات باندھی ہیں اس کے لیے ان کے پاس کیا دلائل ہیں۔ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر خفیہ ہاتھ نے جمہوری نظام تباہ کرنے کی کوشش کی تو عوام ترکی کی طرح اسے بچانے کے لیے سڑکوں پر آجائیں گے۔ آخر کیوں؟؟ کیا عوام میاں نواز شریف کے دیوانے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو جس روز ان کی وزارت عظمیٰ ختم ہوئی تھی اسی روز سڑکوں پر عوام کو نکلنا چاہیے تھا۔ جب میاں نواز شریف کی نا اہلی اور بار بار طلبی وارنٹ اور اب گرفتاری کے خدشات کے باوجود عوام سڑکوں پر نہیں ہیں تو پھر عوا م کس طرح اور کیونکر اس روایت کو توڑدیں گے۔ ویسے جمہوریت تباہ کرنے کی روایت صرف فوج کی نہیں ہے۔
>خود وزیر داخلہ اعتراف کررہے ہیں کہ ضیا کے مارشل لا، بے نظیر کی برطرفی اور یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے جیسے اقدامات میں ہم سب شریک تھے۔ تو جناب یہ ہاتھ خفیہ تو نہیں رہا۔ جنرل ضیا صرف اس لیے آئے کہ انہیں بھٹو صاحب کی ضد نے موقع دیا۔ بے نظیر اس لیے ہٹائی گئیں کہ وہ خود کو آئین سے ماورا سمجھنے لگی تھیں جو جمہوریت کے خلاف ہے اور رہے یوسف رضا گیلانی تو ان کو تو خود پیپلزپارٹی کی قیادت ہٹانا چاہتی تھی تاکہ سارا ملبہ ان پر ڈال کر کچھ مخصوص لوگوں کو بچالیا جائے۔ لیکن احسن اقبال صاحب ذرا بتائیں کہ پھر خفیہ ہاتھ کہاں ہے۔ یہ درست ہے کہ فوج کے طالع آزما ہروقت تاک میں رہتے ہیں لیکن بات ضیا الحق سے کیوں شروع کرتے ہیں۔ ایوب خان سے کیوں نہیں کرتے۔ اس سے پہلے جب سیاسی رہنما ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے تھے تو فوج نے کام دکھادیا۔ یہ بات بھی احسن اقبال صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایوب خان سے قبل سیاست دان کس کے اشارے پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف تھے۔ پھر جنرل ضیاالحق کے گرد کون تھا۔ میاں نواز شریف کے سیاسی اور روحانی باپ جنرل ضیاالحق ہی تھے۔ احسن اقبال صاحب نے بھی اسی نرسری سے تعلیم پائی ہے۔ وہ اعتراف تو کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ میاں شریف اور نواز شریف کو بھی اسی جرم میں شریک ثابت کررہے ہیں۔ احسن اقبال صاحب جس خیال میں ہیں کہ عوام جمہوریت پر شب خون ناکام بنادیں گے اﷲ کرے یہ خیال درست ہوجائے لیکن جس روز جنرل ضیا نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کیا تھا کوئی گھر سے بھی۔ نہیں نکلا تھا اور بھٹو کی مقبولیت میاں نواز شریف سے کہیں زیادہ تھی وہ صرف سندھ میں نہیں پنجاب میں بھی یکساں مقبول تھے لیکن جب کارروا ئی ہوئی تو آج جیسے بھٹو کے نعرے لگانے والے اس وقت مٹھائیاں بانٹ رہے تھے اور آج کیا ہورہاہے۔ ملک کا قانون عدالتیں اور ادارے میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دے رہے ہیں ان کے خلاف مقدمات قائم ہیں اور پوری حکومت مل کر ان کے دفاع میں مصروف ہے۔ سب کے سب عدالتوں کو مطعون کررہے ہیں۔ عدالتیں فیصلے دے رہی ہیں اور حکومت کھلم کھلا ان کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ عدالت نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا اسمبلی نے انہیں پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار دے دیا پھر خفیہ ہاتھ کیسا۔ سارا ہاتھ تو سامنے آگیا ہے۔ بات صرف مسلم لیگ تک محدود نہیں ہے پورے ملک میں یہی ہورہاہے۔ کراچی میں جرائم پیشہ گروہوں سے بڑھ کر ملک دشمن گروہوں میں شامل لوگوں کے سر پر تاج رکھنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ 28 برس ’’را‘‘ کا ایجنٹ رہنے والے کو ہیرو بنایا جاتا ہے، اب اس کی پارٹی کو کراچی کی قیادت دینے کی تیاری ہے۔ بڑے بڑے قتل اور آتشزنی کے مجرم پاک صاف ہوگئے ہیں۔ ایسے میں جمہوریت کو کسی خفیہ ہاتھ سے تباہ کرنے کیا ضرورت سارے ہاتھ تو سامنے آگئے ہیں۔ اب مرکز میں مائنس پلس کا کھیل بھی شروع ہوگیا ہے جسے دو روز قبل احسن اقبال صاحب میوزیکل چیئر کا کھیل بھی کہہ رہے تھے۔ جناب احسن اقبال صاحب کو یہ بتانا چاہیے کہ میوزک کون بجارہاہے اور ایک کرسی کے کتنے دعویدار یا خواہش مند ہیں اور اس میوزک پر سب کیوں لندن دوڑے جاتے ہیں۔ ایک وفعہ اعلان کردیں اور پاکستان میں ڈٹ جائیں۔ اگر مائنس پلس کے فیصلے عوام ہی کو کرنے ہیں، اہل اور نا اہل کا فیصلہ بھی عوام سے لینا ہے تو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردیں۔ ڈرتے کیوں ہیں۔