غذا یا وبا

558

شاہد شکیل

ہم لوگ کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں۔ روزانہ صبح و شام بغیر کچھ سوچے سمجھے کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ کیا ہم میں سے کسی نے یہ سوچا ہے کہ ہم کیا کھاتے ہیں؟ ہماری اس خوراک میں کیا کیا اجزا موجود ہیں؟کیا ہم روزانہ اپنی خوراک میں کاربوہائیڈریٹ ،پروٹین ، چربی، وٹامنز اور نمکیات و معدنیات متعین و متوازن مقدار میں لیتے ہیں ؟بلاشبہ غذاایسا مادہ ہے جو ایک انسان کو جسمانی و ذہنی نشونما اور تندرستی کے لیے غذائیت سے بھر پور توانائی فراہم کرتا ہے۔ جہاں تک ہمارے جسم کا سوال ہے تو اسے صحت مند رکھنے کے لیے مختلف غذاؤں کی اشد ضرورت ہے، لیکن عام انسان اس بات سے بے خبر ہے کہ جو غذا ہم روزمرہ استعمال کرتے ہیں اس میں تیزاب ہوتا ہے اور ہم تیزابی غذاؤں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ انسانی جسم کے لیے چربی ،حیاتین اور قلیل مقدار میں مخصوص قسم کی نمکیات لازمی ہیں۔ کسی ایک جزو کی کمی سے جسم کے خلیوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں لیکن غیر متوازن غذا کے استعمال سے بیماریوں کے لیے راہ ہموار ہوتی ہے۔ مثلاً ہم گوشت کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں چونکہ گوشت میں تیزاب ہے اس لیے جسم کا اندرونی ماحول تیزابی ہو جاتا ہے ،علم نہ ہونے اور کھانے سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ اس غذا میں کوئی ضرر رساں اجزا تو شامل نہیں ؟ہم اس بات سے قطعی لاعلم ہیں کہ کس غذا میں تیزابیت اور چکناہٹ ہے اور کتنی مقدار میں ہے ؟اکثر و بیشتر بیماری کی حالت میں ڈاکٹرز ہمیں تیل و گھی کے استعمال سے پرہیز کرنے کی ہدایت بھی کرتے ہیں۔
صحت مند رہنے کے لیے نہ صرف مناسب و متوازن غذا اہمیت کی حامل ہے بلکہ یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے کہ ہم جو غذا کھا رہے ہیں وہ ہماری صحت اور تندرستی کے لیے مفید بھی ہے یا نہیں اور اس کلیے پر تو عمل کرنا سراسر نادانی ہے کہ صرف کھانے پینے سے ہی صحت اچھی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ جاننا بھی لازمی ہے کہ اس غذا میں شامل اجزا کتنا نقصان دہ یا مفید ہیں۔بجائے اس کے کہ پیٹ بھر کر کھا پی لیا اور بد ہضمی کی صورت میں معدے یا پیٹ کی تکلیف کے باعث ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑا یا ہاضمے کی گولیاں کھا لیں۔ہاضمے کی گولیوں میں بھی ایسڈ شامل ہوتا ہے جو وقتی طور پر تکلیف سے نجات دلا دیتا ہے لیکن مستقبل میں اس کے اثرات نقصان دہ ہوتے ہیں۔
ہم کوئی بھی غذا صرف پیٹ بھرنے کے لیے ہی کھاتے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ہماری غذا میں وہ سب لازمی اجزا موجود ہیں جو ہمارے جسم کو تندرست و توانا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ہمارے نظام ہاضمہ ،دل، دماغ ، گردوں ، جگر ، پھیپھڑوں اور دوران خون پربے حد مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم اپنی غذا کو متوازن رکھنے میں کامیا ب ہو جائیں ،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ چند برس میں خوراک کے معاملے میں ایسا انقلاب آیا ہے جس سے سب کچھ بدل گیا ہے۔ہم مغربی طرز وعمل کی طرف رواں دواں ہیں۔ فاسٹ فوڈ نے ہمیں کئی انجانی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں شاید ہی دنیا میں کوئی انسان میٹھی اشیاکا اتنا رسیا ہو جتنا ہم ہیں اور اسی وجہ سے شوگر ، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، امراض قلب ،موٹاپا اور کئی سرطانی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
تیزابی غذاؤں کا بے دریخ استعمال شادی بیاہ اور تہواروں پر کیا جاتا ہے۔ گوشت کا حد سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور کھانے کے بعد میٹھا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔مصالحے دار، چکناہٹ اور تیزابیت سے بھرپور غذا اور اوپر سے شیریں خوراک، زردہ، سویاں،کھیر اور مٹھائی وغیرہ دونو ں صحت کے لیے مضر ہیں کیونکہ تیل یا چربی سے تیار شدہ کھانا دل کے امراض کا باعث بنتا ہے اور میٹھا شوگر پیدا کرتا ہے۔
صحت اور غذاسے متعلق جرمن ماہرین نے تحقیقات کرنے کے بعد چند اجزا کے بارے میں خاص طور پر محتاط رہنے کی تلقین کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روزمرہ کی خوراک میں چند اشیا کا کثرت سے استعمال کئی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے یا اموات بھی واقع ہو سکتی ہیں۔
مثلاًدودھ کے زیادہ استعمال سے الرجی یا دست لگنے کا خدشہ ہے۔ الکوحل کے استعمال سے جگر کے علاوہ معدے کی نالی ، لبلبہ ،قلبی نظام ، یاداشت اور پٹھوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے زچہ و بچہ کی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے یا بچے کی جسمانی ساخت پر اثر پڑ نے کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تلخ ،کڑوے بادام میں سائینائیڈ ہوتا ہے۔ کڑوے بادام کا تیل انتہائی خطرناک ہے۔
خام انڈے کھانے سے سالمونیا انفیکشن کا خطرہ ہے جس کی علامات ،قے، پیٹ میں درد ، دست اور بخار نمایاں ہیں۔ خاص طور پر بچوں اور عمر رسیدہ افرادکے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ مچھلی اور دیگر سمندری جانوروں میں سمندری آلودگی کافی مقدار میں پائی جاتی ہے۔ ان کے زیادہ استعمال سے مضبوط اعصاب کے افراد کو بھی متلی، قے ، توازن، پٹھوں، سانس لینے میں تکلیف ہو سکتی ہے۔کسی قسم کا کچا گوشت حاملہ خواتین کے لیے ممنوع ہے۔ اس سے خواتین لیسٹریا میں مبتلا ہو سکتی ہیں اور مہلک جراثیم بچے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کچے گوشت سے خارش اور آنتوں کی سوزش کا بھی خطرہ ہے۔فرانسیسی فرائز ، کوکیز اور کیک میں چربی کی بہت بڑی مقدار پائی جاتی ہے وہ خون میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول میں اضافہ کرتے ہیں اور دل کی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ بہت زیادہ کافی کے استعمال سے کانپنا،بے چینی،قے یا دل کی دھڑکن کی خرابی کی شکایت اور پیٹ کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سرسوں کے تیل کا کوکنگ میں زیادہ استعمال متلی اور قے کا سبب بن سکتا ہے اور گردوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈرائی فروٹ میں سب سے زیادہ الرجی کی محرکات پائی جاتی ہیں جو کم مقدار کے استعمال سے بھی دمے کی بیماری کا سبب بن سکتی ہیں۔ عام طور پر مونگ پھلی الرجی کا باعث بنتی ہے۔پھل اور سبزیاں اکثر کیڑے مار اسپرے اور ادویات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لہٰذا انہیں ہمیشہ اچھی طرح دھو کر اور چھیل کر استعمال کیاجائے۔ کالی چائے میں سیلی سیلک ایسڈ کی بہت مقدار ہے، الرجی کے شکار کو چائے سے مزید ہوشیار رہنا چاہیے۔ وٹامن کے بارے میں ہر انسان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ صحت کے لیے مفید ہیں لیکن بہت سے وٹامن آپ کو بیمار کر سکتے ہیں ،مثلاً وٹامن سی گردے میں پتری کاسبب ، وٹامن اے سر میں درد ، چکر،غنودگی اور قے کی وجہ بنتا ہے۔بہت زیادہ وٹامن ڈی خون میں کیلشیم کی سطح کو بڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں متلی ، پٹھوں کی کمزوری ، جوڑوں کا درد وغیرہ،بہت زیادہ وٹامن سے جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دنیا بھر میں انسان کھانے پینے کے ساتھ ورزش ،اسپورٹس ،جمناسٹک ،واکنگ اور جاگنگ کرتے ہیں تاکہ اپنے جسم کو فٹ اور تندرست رکھ سکیں اور پاکستان میں لوگ کھانے پینے کے بعد لمبی تان کر سو جاتے ہیں اسی وجہ سے وہ اپنے جسم کو فٹ نہیں رکھ پاتے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دنیا کا کوئی انسان اچھی خوراک کے ساتھ اگر ورزش بھی کرتا ہے تو 10 سے 20 سال زیادہ زندگی پاتا ہے۔ مغربی ممالک میں 70 اور 80 سالہ بوڑھے افراد سائیکل چلاتے ہیں جبکہ پاکستان میں 40، 45 سال کی عمر میں لوگ اپنے آپ کو عمر رسیدہ افراد میں شامل کرنا شروع کر دیتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تمام عمر صرف کھایا، پیااور سویا۔