کراچی میں بڑھتی ہوئی وارداتیں

663

کراچی میں رہزنی اور لوٹ مار کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں لیکن حکومت سندھ صرف ایک ہی مسئلے میں الجھی ہوئی ہے کہ انسپکٹر جنرل پولیس اللہ ڈنو خواجہ سے کیسے دامن چھڑایاجائے۔ اس سے پولیس بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور لٹیروں کے مزے آگئے ہیں۔ گزشتہ ماہ اکتوبر کی رپورٹ ہے کہ کراچی میں موبائیل چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک ماہ میں 2ہزار 345شہری موبائل فون سے محروم ہو ئے اور یہ وہ تعداد ہے جس کی رپورٹ کی گئی ورنہ تو اکثر شہری صبر کرکے رہ جاتے ہیں ۔ اکتوبر میں رہزنی کی 164 وارداتیں ریکارڈ کی گئیں۔101 شہری گاڑیوں سے محروم ہو گئے۔ بھتا خوری کی 7 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ خواتین پر تیز دھا آلے سے حملے کرنے اور چاقو باز چھلاوے کے نام سے شہرت پانے والا متعدد ایجنسیوں کے ہوتے ہوئے بھی پکڑ میں نہیں آسکا۔ لیکن پکڑے گا کون؟ ایک خبر یہ ہے کہ 10تھانوں کے تھانیدار اغوا کار بن گئے اس کام کے لیے خصوصی پارٹیاں تیار کی گئی ہیں جو گھروں میں گھس کر شہریوں کو اٹھالے جاتی ہیں اور پھر اہل خانہ سے رابطہ کرکے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ’’ مختصر دورانیے کا اغوا‘‘ کی اصطلاح وجود میں آگئی ہے۔ جس میں یہ ہوتا ہے کہ پولیس کی خصوصی پارٹی کسی مغوی کو اپنی گاڑی میں لیے پھرتی ہے اور لین دین کا معاملہ طے پاجاتا ہے۔ رشوت نہ ملے تو جھوٹا مقدمہ درج کرادیاجاتاہے۔ جب پولیس ہی جرائم میں ملوث ہو تو شہریوں کی حفاظت کون کرے گا؟ بسوں میں جیب کترے ہاتھ کی صفائی دکھارہے ہیں تو سڑکوں پر سر عام خواتین کے پرس چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہورہاہے۔ شہر کے امن میں پولیس کا کردار ویسے بھی نہ ہونے کے برابرتھا۔ رینجرز کی وجہ سے امن کی کچھ فضا پیدا ہوئی تھی، رفتہ رفتہ وہ مفقود ہوتی جارہی ہے، حکومتی اداروں سے ٹکراؤ کے نتیجے میں رینجرز کی توجہ دوسری طرف مبذول ہے۔ پولیس مقابلوں میں ہمیشہ مجرموں کے مرنے کی خبر آتی ہے ایسا کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی چور اچکے کا یا ڈاکو کا مقابلہ کرتے ہوئے کسی پولیس والے نے جان دی ہو۔ ہاں کچھ دن قبل چند پولیس والے ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے تھے اور وہ بھی بلا مقابلہ۔۔۔ شہر کے امن کے حوالے سے پولیس کی رپورٹ کے اعدادو شمار حقیقت پر مبنی نہیں قرار دیے جا سکتے کیونکہ اکثر و بیشتر شہری وہ ہوتے ہیں جو موبائل یا پرس چھینے جانے پر پورٹ درج نہیں کراتے ، محض موبائل سم بند کرانے پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ پولیس پر تو عوام ویسے بھی اعتماد نہیں کرتے رینجرز بھی اپنی ساکھ متاثر ہونے سے بچائیں۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ رینجرز زیادہ مہنگے پڑ رہے ہیں۔ سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کے خلاف عدالت عظمیٰ تک پہنچ گئی ہے۔