گدھے‘ گھوڑے اور ہارس ٹریڈنگ

877

خبر آئی ہے کہ جناب آصف زرداری نے جو اپنے ناراض سیاسی دوستوں کو منانے کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں ایک دیرینہ ساتھی ملک حاکمین کو عمدہ نسل کا ایک گھوڑا تحفے میں دیا ہے۔ ہمیں یاد آیا کہ انسان نے جب سے اس کائنات میں شعور کی آنکھ کھولی ہے، گھوڑا اس کا اوّل روز سے نہایت معتمد ساتھی اور رفیق چلا آرہا ہے۔ یوں تو قدرت نے انسان کی خدمت اور سواری کے لیے اور بھی کئی جانور پیدا کیے ہیں، مثلاً گدھا ہے جو بار برداری کے کام بھی آتا ہے اور سواری کے بھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بہت بھلا مانس اور صابر جانور ہے اس پر جتنا بھی بوجھ لاد دو یہ گھبراتا نہیں اُٹھا کر چل پڑتا ہے اور سامان منزل مقصود پر پہنچا دیتا ہے جب کہ سواری کے لیے بھی یہ زمانہ قدیم میں نہایت موزوں جانور سمجھا جاتا تھا۔ اس پر انبیا نے سواری کی ہے۔ سیدنا عیسیٰؑ کے گدھے کو تو اپنے زمانے میں بڑا عروج حاصل ہوا تھا لیکن محض گدھا ہونے کی وجہ سے وہ سلوک کی منزلیں طے نہ کرسکا اور گدھا ہی رہا، گدھے سے بہت سی حکایتیں اور روایتیں منسوب ہیں، کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ گدھے کو انسان بنانے کے لیے مدرسوں میں چھوڑ جاتے تھے لیکن شومئی قسمت کہ وہ گدھا ہی رہتا تھا، انسان نہیں بن پاتا تھا بلکہ اس کی صحبت میں رہ کر بہت سے انسان گدھے بن جاتے تھے، گدھے نے ہماری زبان پر بھی بہت اثر ڈالا ہے اور ہمیں برتنے کو بہت سے محاورے دیے ہیں، لیکن ہم ان محاوروں کا ذکر کرنے کے بجائے صرف ایک محاورے کا ذکر کرکے بات کو آگے بڑھاتے ہیں وہ محاورہ ہے ’’مطلب پڑنے پر گدھے کو باپ بنالینا‘‘ آپ اندازہ کیجیے کہ مطلبی آدمی جب گدھے کو باپ بنالیتا ہے تو گدھے کی کتنی عزت افزائی ہوتی ہے لیکن گدھا بیچارا پھر بھی گدھا ہی رہتا ہے۔ گدھے کے بعد خچر کا ذکر کرتے ہیں جو اگرچہ ایک دوغلا جانور ہے جو نہ گدھوں میں شمار ہوتا ہے نہ گھوڑوں میں لیکن اس کے باوجود اس کی جفاکشی کا کوئی جواب نہیں۔ وہ اپنی پیٹھ پر بوجھ لاد کر سواری بٹھا کر پُرپیچ پہاڑی راستوں، تنگ گھاٹیوں اور درّوں میں اس شان سے چلتا ہے کہ آدمی کو باغ کی سیر کا لطف آنے لگتا ہے، اسے گھوڑے کے ساتھ اپنی قرابت داری پر بھی فخر ہے، جس کا اظہار علامہ اقبال نے اس کی زبانی یوں کیا ہے۔
میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ صبا رفتار، شاہی اصطبل کی آبرو
اب آئیے گھوڑے کا ذکر ہو جائے جو ہمارا اصل موضوع ہے۔ گھوڑا نہایت طرحدار، بانکا، سنجیلا جانور ہے، وہ ابتدا ہی سے انسانی مہمات میں شریک چلا آرہا ہے۔ ذرا تصور کیجیے اُس زمانے کا جب انسان ابھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز دُنیا میں داخل نہیں ہوا تھا، برق رفتار کاروں، ٹرینوں اور فضا میں اُڑنے والے جہازوں کا تصور بھی محال تھا، ایسے میں گھوڑا ہی تھا جو انسانوں کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر نہایت تیز رفتاری سے منزلیں سر کرتا اور انہیں زمین کی سیر کراتا تھا۔ زمین کو آباد کرنے اور انسانی بستیاں بسانے میں بھی گھوڑے نے انسانوں کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کیا۔ پھر جب انسانوں نے ایک دوسرے پر غلبہ پانے کے لیے جنگ و جدل کا بازار گرم کیا تو گھوڑے نے بھی ان کے ساتھ مل کر اپنی شجاعت و رفاقت کے جوہر دکھائے، انسانی تاریخ میں کتنی ہی صدیاں ایسی گزری ہیں جن میں میدان جنگ گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونجتے سنائی دیتے ہیں۔ یہ محاورہ مشہور ہے کہ دورانِ جنگ گھوڑے بدلے نہیں جاتے۔ یعنی میدان جنگ میں گھوڑا زخمی بھی ہوجائے تو اسے فوری طور پر چھوڑنے کی غلطی نہیں کی جاتی کہ اس طرح حریف موقعے سے فائدہ اُٹھا کر ضرب کاری لگا سکتا ہے اور جیتی ہوئی بازی ہار میں بدل سکتی ہے۔ زخمی گھوڑے بھی اپنے مالک کی وفاداری میں جان لڑا دیتے ہیں لیکن اپنی وفا پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے، جنگوں میں گھوڑے کا کردار باقی نہیں رہا لیکن انسانوں میں گھڑ سواری کا شوق بدستور باقی ہے۔ امریکا ہو، یورپ ہو، عرب ممالک ہوں یا ایشیائی و افریقی ممالک ہر جگہ گھوڑا اب بھی انسانی زندگی میں دخیل ہے۔ دُنیا میں اب بھی گھوڑوں کی بڑے پیمانے پر تجارت ہوتی ہے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے بڑے دام لگتے ہیں۔ پاکستان میں گھوڑوں کی تجارت کچھ ایسی معروف نہیں ہے البتہ پاکستان کی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ یعنی گھوڑوں کی تجارت کا بڑا شہرہ ہے۔ یہ چار ٹانگوں والے اعلیٰ گھوڑے نہیں ہوتے بلکہ دو ٹانگوں اور انسانی چہروں والے نقلی گھوڑے ہوتے ہیں جو اپنی قیمت لگوانے کے لیے گھوڑوں کے اصطبل میں جمع ہو جاتے ہیں اور خریداروں کو دیکھ کر اُچھل کود کرنے لگتے ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہارس ٹریڈنگ کے مقابلے ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب اگلے سال ہونے والے انتخابات کا چرچا ہے اگرچہ ان انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن درپردہ اس کی تیاریاں بھی جاری ہیں اور بلیک مارکیٹ میں ہارس ٹریڈنگ بھی کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس وقت مشکل صورت حال سے دوچار ہے اس کا لیڈر عدالت سے نااہل ہوچکا ہے اب اسے احتساب عدالت میں ریفرنسز کا سامنا ہے، وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا لیکن وفاق اور پنجاب میں اب بھی اس کی پارٹی کی حکومت ہے، اس کا سیاسی اصطبل فی الحال گھوڑوں سے بھرا ہوا ہے تاہم ان گھوڑوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور بعض گھوڑے ہنہنانا کر اپنی بے چینی کا اظہار کررہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک حریف شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساٹھ گھوڑوں کی فہرست ان کی جیب میں ہے جو اصطبل سے رسّی تُڑا کر کسی وقت بھی دوسرے اصطبل کا رُخ کرسکتے ہیں۔ بس انہیں اچھا چارا اور اچھی قیمت چاہیے۔ اس ہارس ٹریڈنگ میں بہت سی بولیاں سننے میں آرہی ہیں۔ جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں تو لندن میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور آنے والی افتاد کو ٹالنے کی تدبیر کررہے ہیں۔ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے شاید یہ جمہوری تماشے کا حصہ ہے اور بہت سے بزر جمہروں کا یہ خیال ہے کہ یہ تماشا جاری رہنا چاہیے اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی اور ملک ترقی کرے گا۔