دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کیلیے 50 ارب روپے کی لاگت کے بجلی گھر منصوبے کا انکشاف 

403
ٹینڈرز میں کامیاب ہونے والی فرمز کو بینک قرضہ حاصل کرنے کی بھی سہولت دی جارہی ہے
جبکہ اس قرض کی گارنٹیئر حکومت سندھ خود ہوتی ہے

کراچی(رپورٹ : محمد انور)کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کو بجلی کی فراہمی کے لیے 50ارب روپے کی لاگت سے ایک ایسے منصوبے کا انکشاف ہوا ہے جس پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو اینڈ ایس بی ) او رسندھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (سیپرا )نے تحفظات کا اظہار کرنے کے باوجود عمل کرنا شروع کردیا ہے۔
دلچسپ امر یہ کہ بے قاعدگی اور قوانین کے خلاف اس پروجیکٹ پر عین اس وقت عمل ہورہا ہے جب سندھ میں قومی احتساب بیورو (نیب )غیر معمولی سرگرم ہے اور صوبائی حکومت اپنی پارسائی کا واویلا کررہی ہے ۔
باخبر سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت سندھ پر پر اثر انداز سیاسی شخصیت اور ان کے قریبی و بدنام زمانہ دوست کے اشارے پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر بلا تعطل بجلی کی فراہمی کے لیے 50 ارب روپے کی لاگت کا ایک
منصوبہ حکومت کو پیش کیا گیا ۔ اس منصوبے کے تحت کنٹریکٹر فرم 40 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کے لیے بجلی گھر بنائے گی ۔حکومت کی ہدایت پر کے ڈبلیو اینڈ ایس بی نے اس منصوبے پر عمل کرنا شروع کردیا ۔
پروجیکٹ کے لیے پری کوالیفیکشن ٹینڈرز طلب کیے جاچکے ہیں تاہم مزید کارروائی کے ساتھ ہی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو علم ہوا کہ اس قدر بڑی لاگت کا منصوبہ جس میں بینک کا قرض بھی شامل ہے اورجو بلڈ آپریٹ اور اون کی بنیاد پر ہے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے لیے ناقابل عمل ہے ۔ جس پر واٹر بورڈ نے 17اگست 2017ء کو سپیرا حکام کو لکھے گئے ایک خط کے ذریعے رائے طلب کی اور ان سے قانونی رائے مانگی جس پر 22اگست کو سیپرا حکام نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو آگاہ کیا کہ سیپرا قوانین کے تحت بی او او اوربی او او ٹی کے تحت کوئی کام نہیں کرائے جاسکتے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بی او او کے تحت مکمل کرانے کے لیے اس منصوبے کے لیے3 فرمز ٹیکنو مین کنیٹک ، انگرو پاور گین اور اورینٹ انرجی سسٹم کے بارے میں کنسلٹ نے سفارش کی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کو ٹینڈرز کی کارروائی کے بعد کنٹریکٹ دیا جاسکتا ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹینڈرز میں کامیاب ہونے والی فرمز کو بینک قرضہ حاصل کرنے کی بھی سہولت دی جارہی ہے جبکہ اس قرض کی گارنٹیئر حکومت سندھ خود ہوتی ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اس لحاظ سے بھی بے قاعدگی کا ہے کہ اس کے لیے ٹھیکدار فرم کو اپنی جیب سے کوئی رقم نہیں دینی پڑتی بلکہ پورے 50ارب روپے بینک کا قرضہ ہوتا جس کا ضامن بھی فرم کے بجائے حکومت ہوتی ہے۔

ذرائع کا کہناہے کہ سیپرا کی جانب سے اعتراض موصول ہونے کے بعد کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے حکام کو مطلع کردیا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ باوجود سیپرا حکام کے اعتراض کے منصوبے کو مکمل کرانے کے لیے مبینہ طور پر حکام پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر واٹر بورڈ مذکورہ ایک پمپنگ اسٹیش کے لیے اپنا بجلی گھر قائم کرتی ہے تو کے الیکٹرک سے بھی اس کی پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے جبکہ کے الیکٹرک مشروط اجازت دیتی جس کے تحت وہ واٹر بورڈ کی تمام تنصیبات کو بجلی کی فراہمی بھی ختم کرسکتی ہے۔