یہ کیا تماشا لگا رکھا ہے؟؟

379

خالد تم تاخیر سے کیوں آئے ہو۔ تمہارا ہوم ورک بھی مکمل نہیں ہے۔ جی سر۔ سلیم سے بھی تو پوچھیں وہ بھی تو ہوم ورک نہیں کرتا اور آج بھی دیر سے آیا ہے۔ارے تمہیں سلیم کی کیا فکر اپنی بات کا جواب دو۔ اس پر کلاس کے اور بچے بھی کھڑے ہوجاتے ہیں اور شور مچانے لگتے ہیں کہ سر یہ تو خالد کے ساتھ ناانصافی ہے۔ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ سلیم کو تو جگہ پر بیٹھنے کی اجازت دے دی اور خالد سے سوالات پر سوالات۔ پھر ڈیسک بجائے جانے لگے اور سب نے مل کر ایک قرار داد منظور کی کہ اس کلاس ٹیچر کا تبادلہ کردیا جائے۔ ہمیں یہ ٹیچر نہیں چاہیے اور مزیدار بات یہ ہے کہ پرنسپل صاحب نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہہ بھی دیا کہ فوری تبادلہ کیا جائے۔ آپ بھی کہیں گے کہ کیسے طالبعلم ہیں ایک تو غلطی کریں اور اس پر بحث بھی کریں اور کلاس کے طلبہ کو دیکھو۔ انہیں پڑھنے کے لیے بھیجا گیا تھا غلط بات پر ٹوکنے والے اساتذہ کو ہٹوانے کے لیے نہیں۔ یہ رویہ اکثر دفاتر میں بھی سامنے آتا ہے۔ لیکن کیا یہ پورے ملک میں نہیں ہورہا ہے۔ میاں نواز شریف کو پاناما پر نہیں اقامہ پر نکال دیا گیا اس مقدمے کی سماعت کے دوران بہت سے جھوٹ سامنے آئے۔ بہت سی غلطیوں کا اعتراف کیا گیا۔ جس دولت کی ملکیت سے برسہا برس سے انکار کررہے تھے ان کی ملکیت بھی تسلیم کرلی گئی۔ لیکن جب پکڑے گئے فیصلہ ہوگیا تو رویہ وہی دوسری کلاس کے خالد اور سلیم والا۔ مجھے کیوں نکالا۔ بات صرف ان کی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی جس کے ارکان کو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اسمبلی میں بھیجا گیا تھا وہ نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے لیے آئینی ترمیم کرنے لگے۔ اب اسپیکر، عدلیہ اور دیگر ادارے انہیں ریلیف دینے میں نرم رویہ اختیار کرنے لگے۔ جوں ہی ایسا ہوا سندھ اسمبلی میں یہی کہانی دہرائی گئی، اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث سابق صوبائی وزیر اسمبلی میں داخل ہوئے تو ان کا زبردست استقبال کیا گیا اب لگ رہا تھا لال قلعہ پر پاکستانی پرچم لہرا کر آئے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح نواز شریف کا جی ٹی روڈ پر استقبال کیا گیا تھا گویا کشمیر آزاد کروالیا ہو۔
یہ خالد اور سلیم تو استعارہ ہیں لیکن قومی شعور کو کیا ہوگیا ہے۔ ٹی وی چینلز، نومولود اینکرز اور سیاسی رہنما بھی اسی بحث میں اُلجھ گئے کہ نواز شریف کو رعایتیں مل رہی ہیں اور شرجیل میمن کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ حالاں کہ ان سب کی اس بات پر گرفت ہونی چاہیے تھی کہ کون سا کارنامہ کیا جس پر اس قدر ہلڑ بازی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی تو محض الزام ہے اس کی وجہ سے ہمیں کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن یہ دلیل بالکل درست نہیں۔ کیوں کہ یہ الزام ایسے الزامات نہیں ہیں جو کسی نے دھرنے کے دوران دھر دیے تھے بلکہ یہ الزامات نیب، ایف آئی اے اور عدلیہ میں عائد کیے گئے ہیں پھر بھی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اپنے آپ کو پارسائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ہم اور آپ، اسکول کالج اور دفتر میں ایسے رویے پر بے اختیار چیخ پڑتے ہیں کہ ارے یہ کیا تماشا لگا رکھا ہے۔ ماؤں کی زبان میں تو یہ کہا جاتا ہے کم بختو۔ گھر کا بیڑا غرق کردیا، ہر چیز تباہ کردی اور کہتے ہو ہم نے کیا کیا ہے دوسرے کو پکڑو۔ ابھی ٹھیرو۔ لیکن یہاں تو اسمبلی اور حکومت دونوں ہی اپنے اپنے شیطان بچوں خو پارسا بنارہے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف کے لیے قانون تبدیل کیا گیا اور جی ٹی روڈ پر استقبال کیا گیا تو پھر شرجیل میمن نے کیا قصور کیا ان کے لیے پوری سندھ اسمبلی کے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے اور نیب کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کرلی۔ کیا جرم کیا ہے نیب نے؟ اس پر کوئی جواب نہیں ہے۔ خیر جو لوگ اسمبلیوں اور حکومتوں میں ہیں ان سے اب کوئی توقع نہیں انہوں نے تو ثابت کردیا ہے کہ وہ غلط کام کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ عدالتوں میں کچھ طاقت ہوتی تو ایسی قرار داد پیش اور اس کی تائید کرنے والے کو تو گھر بھیج دیتی جس میں نااہل کو اہل بتایا گیا اور جس میں شرجیل میمن کے مسئلے پر نیب کے خلاف مذمت کی گئی۔ لیکن ہمارے سیاسی شیر عدالتوں میں مقدمات سے نمٹیں۔ انہیں کس نے روکا ہے۔ لیکن سڑکوں اور چوراہوں پر فیصلے نہ کرائیں اور اسمبلیوں کو بھی چوراہا نہ بنائیں۔ جب عمران خان نے طویل دھرنا دیا تھا تو مسلم لیگ نے کہا تھا کہ چوک پر فیصلہ نہ کرائیں اسمبلی میں آئیں پھر وہی مسلم لیگ جی ٹی روڈ پر نکل آئی۔ اگر ایسے حالات میں کہیں سے ٹیکنو کریٹ حکومت کی آواز آرہی ہے اور جمہوری نظام لپیٹنے کی باتیں ہورہی ہیں تو اس کا ذمے دار کون ہے۔ کیا جمہوریت اس کو کہتے ہیں۔ یہ وی آئی پی کلچر ختم نہیں ہوگا تو جمہوریت نہیں چلے گی۔ اگر اس چوری اور سینہ زوری کے رویے کے نتیجے میں کسی طالع آزما نے جمہوری نظام کو نقصان پہنچایا تو ذمے دار یہی لوگ ہوں گے۔ پھر جو تباہی فوجی آمر مچاتا ہے اس کا تو کچا چٹھا خود بریگیڈیئر صدیق سالک پیش کرچکے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ (ایک زمانہ تھا) تپ دق پھیلتا ہے تو پتا نہیں چلتا اور جب پتا چلتا ہے تو علاج نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح فوج کی پیدا کردہ خرابیوں کا فوری طور پر پتا نہیں چلتا اور جب پتا چلتا ہے تو وہ لاعلاج ہوچکی ہوتی ہیں۔ صدیق سالک کے فارمولے کے مطابق یہ سیاسی بیماریاں جو اسمبلیوں اور حکومتوں میں ہیں ان کو دیکھا جاسکتا ہے انہیں پرکھا جاسکتا ہے۔ لیکن کب۔۔۔؟؟