احتساب سے بالا ہونے کے دعویدار

424

پاک فوج پیپلز پارٹی کی شکر گزار ہوگی کہ اس نے اسے احتساب سے بالا تر ادارہ بنادیا۔ شاید عدلیہ بھی اس امر پر اظہار تشکر کرے۔ بہر حال یہ ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ فوج کی اے ٹیم کا کردار ادا کیا ہے۔ جس پر اسے ہر فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد انعام کے طور پر حکومت ملی ہے۔ اسے جمہوریت بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی تمام اداروں کے محاسبے کی تجویز سے دستبردار ہوگئی جس کے بعد مسلم لیگ کی حکومت نے ججوں اور جرنیلوں کو مجوزہ احتسابی قانون کے دائرے سے باہر کردیا ہے۔ اس بات پر جج اور جرنیل جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ کیوں کہ جس قسم کا احتساب آج کل پاکستان میں جاری ہے اور احتساب کے ساتھ جو مذاق ہورہا ہے اس کی روشنی میں جج اور جرنیل خود کو کسی طور اس مذاق کا حصہ نہیں بننے دیں گے۔ خیر یہ تو یوں ہی تبصرہ تھا لیکن جج، جرنیل، حکمران ارکان اسمبلی، سب ہی کو احتساب کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ ایسے قوانین بنا کر پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ آئین کے تحت اسمبلی قانون وضع کرسکتی ہے لیکن کوئی قانون خلاف شریعت اسلامیہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام تو حکمرانوں اور طاقتور لوگوں کے احتساب کا زیادہ قائل ہے۔ اور احتساب ہونا بھی چاہیے طاقتور لوگوں کا تا کہ کمزور یا چھوٹے موٹے لوگ کسی قسم کی غیر قانونی حرکت سے بچیں۔
پاکستانی پارلیمان جس قسم کے قوانین بنارہی ہے اس پر اس کی سخت گرفت بھی ہوسکتی ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ صرف اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ابھی فوجی گملوں کی پنیری سے بننے والے پودوں کے احتساب کا عمل شروع ہوا تھا تو قوانین بدلے جانے لگے۔ اسمبلیوں میں استقبال ہونے لگے، مجھے کیوں نکالا کے نعرے بلند ہونے لگے، احتجاجی صدائیں آرہی ہیں، اسمبلی میں بھرپور قوت کے ساتھ کرپشن کے ملزموں کا دفاع کیا جارہا ہے، عجیب چلن ہے ٹی وی چینلوں کی بہار ہے لہٰذا بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا کے مصداق جب بھی کرپشن میں ملوث کوئی شخص احتساب عدالت، عدالت عظمیٰ یا ایف آئی اے میں پیش ہوتا ہے تو فتح کا نشان بناتا ہوا بڑی بڑی گاڑیوں کے جلوس میں سے برآمد ہوتا ہے۔ اس کی آمد پر گل پاشی کی جاتی ہے، نعرے بازی کی جاتی ہے اور اگر رکن اسمبلی ہو تو بات ہی بن جاتی ہے۔ ٹی وی چینلز براہ راست ان کی تقریر نشر کرتے ہیں اور اربوں روپے کی کرپشن پر بات کرنے کے بجائے نواز شریف خاندان کے وی آئی پی احتساب کی بات کی جاتی ہے اور نواز شریف خاندان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں تو نکالا جاتا ہے اور زرداری اور ان کی پارٹی کے کرپٹ لوگوں کو ضمانتیں دی جاتی ہیں، وہ لوگ ضمانت کے مزے لے رہے ہیں حالاں کہ یہ مزے دونوں ہی لے رہے ہیں۔ اصل زیادتی تو عوام کے ساتھ ہے ان کا مال لوٹا گیا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ مشکل ہے کہ کسی عدالت میں ثابت کردیا جائے کہ کس نے کیا لوٹا ہے۔ مگر معاملہ تو یہ ہے کہ اگر عدالت ثابت بھی کردے تو مانتا کون ہے۔ 38 برس بعد ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا کو عدالتی قتل ثابت کردیا گیا تو پھر آج یوسف رضا گیلانی بھی اس ہلّے میں اُچک اُچک کر چلارہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا گیا کہنے کا میں بھی حقدار ہوں۔ بات صرف سیاسی رہنماؤں کی نہیں ہے۔ اگر ایان علی کیس یاد ہو تو اس کو اتنا پروٹوکول اور میڈیا کوریج کسی شو میں نہیں ملی ہوگی جتنی 5 لاکھ ڈالر اسمگل کرنے پر ملی تھی۔ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب اتنی دفعہ ٹی وی پر نہیں آتے جتنی دفعہ مفتی عبدالقوی کی ویڈیو چلائی گئی۔ اب وہ بھی فتح کا نشان بناتے ہوئے عدالت آتے جاتے ہیں۔ شرجیل میمن نے اسمبلی کی پوری تقریر نیب کے دوہرے معیار پر کر ڈالی یہ نہیں بتایا کہ اربوں روپے کہاں سے آئے، کیسے آئے، کس کے تھے۔ اب لگتا ہے اس ملک میں چور صرف عوام ہیں ان کے رہنما الطاف حسین ہوں، مصطفی کمال ہوں، وسیم اختر ہوں یا کوئی بھی۔ وہ سب پاک صاف اور معصوم لوگ ہیں اس پر کوئی تو آواز اٹھائے۔ اس اعتبار سے تو پاک فوج کو اور ججوں کو شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہیں ایسے احتساب سے بالا تر کیا گیا ہے بھلا کوئی جج اور جرنیل نواز شریف کی طرح جلوس نکالنے اور شرجیل میمن کی طرح تقریر کرنے کی کوشش کرے تو کتنا عجیب لگے گا۔ ابھی چند روز قبل امام کعبہ نے بہت اچھی اچھی باتیں کہی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اسلامی حکومت سارے کام کرنے کی مجاز ہے۔ بس یہ شرط جس دن پوری ہوجائے گی یہ سارے ڈرامے خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ اب سمجھ میں آیا کہ لوگ اسلامی حکومت سے خود کیوں ڈرتے ہیں اور لوگوں کو کیوں ڈراتے ہیں؟۔ کیوں کہ اس حکومت میں کوئی وی آئی پی نہیں ہوتا۔ نہ جج نہ جرنیل سب سے زیادہ احتساب اور کڑا احتساب حکمران کا ہوتا ہے یہ بات صرف خلیفہ اول و دوئم تک نہیں تھی سلاطین اور بادشاہ بھی اس نظام کا حصہ تھے۔ ہارون الرشید تو بار بار عدالتوں میں ملزم کے طور پر پیش ہوئے اپنے خلاف بھی فیصلے بھگتے اور حق میں بھی اس طرح کا شور نہیں مچایا جاتا تھا۔ عوام کو خوامخواہ میں اسلامی حکومت سے ڈرایا جاتا ہے اسلام میں سارا احتساب ان بڑوں کا ہوتا ہے یہی شوشے چھوڑتے ہیں۔