سیاسی اسموگ 

490

پاکستان کی سیاست میں مناظرے، مباحثے اور مجادے کی کیفیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی کے ساتھ پورا پنجاب اسموگ کی لپیٹ میں ہے۔ اسموگ کیا ہے، دھویں اور دھند کا ملغوبہ لیکن پاکستانی سیاست پر بھی تو اسموگ چھایا ہوا ہے۔ ہر طرف دھند چھائی ہوئی ہے جس میں خیالات اور الفاظ کی کثافت بری طرح شامل ہوگئی ہے۔ بڑے بڑے سیاسی پہلوان ایک دوسرے کو چور، ڈاکو قرار دے رہے ہیں اور اس طرح سب کے کپڑے اتر رہے ہیں۔ عوام حیران ہیں کہ کس کا اعتبار کریں اور کس کا نہ کریں۔ لیکن کیا عوام اس سیاسی کثافت کا اثر بھی لیتے ہیں؟ اب تک کا مشاہدہ تو یہی ہے کہ عوام کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اور وہ اپنے اپنے پسندیدہ کرداروں کا ہر گناہ معاف کرکے اسے سرکا تاج بناتے ہیں۔ سیاسی پہلوان انتخابات کی تیاری کے لیے لنگر، لنگوٹ کس کر میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ ہر ایک کو گمان ہے کہ بازی وہی جیتے گا۔ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف بڑے بڑے جلسے کر رہی ہے اور عمران خان طویل ترین خطابات کررہے ہیں۔ جن کا لب لباب یہ ہے کہ ان کے سوا سب چور ہیں۔ ان کا خاص نشانہ نواز شریف اور آصف زرداری ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جوابی کارروائی کررہے ہیں۔ عمران خان کے خطابات پر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ عوام میں بیداری پیدا کررہے ہیں۔ لیکن کیا یہ عوامی بیداری انہیں وزیراعظم کے منصب تک لے جائے گی؟ عمران خان اپنا سارا زور جلسوں میں تقریروں پر صرف کررہے ہیں جن میں اب وہ اپنے آپ کو دوہرا رہے ہیں۔ چنانچہ اگر انتخابات ہونے لگے تو انتخابی مہم میں ان کے پاس کہنے کو کوئی نئی بات نہیں ہو گی۔ ادھر حکمران مسلم لیگ ہے جو حکومت کے بجائے اپنا سارا زور شریف خاندان کو بچانے میں صرف کررہی ہے۔ جو بھی وزیر اٹھتا ہے وہ شریف خاندان کے ساتھ عدالتی سلوک کا مرثیہ پڑھ رہا ہوتا ہے اور میاں نواز شریف اور ان کے اہل و عیال کو بے گناہ بلکہ ہرخطاسے مبراثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مستقبل کے کسی اندیشے کے پیش نظر میاں نواز شریف اپنی دختر مریم صفدر کو تیار کررہے ہیں جو ایک انٹرویو میں کہہ چکی ہیں کہ خاندان نے ان کو پارٹی قیادت سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہونے یا منتخب رکن اسمبلی نہ ہونے کے باوجود انہیں سرکاری پروٹوکول فراہم کیا جاتا ہے کیونکہ حکومت ن لیگ ہی کی ہے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے نزدیک تو وزیراعظم نواز شریف ہی ہیں جن کو عدالت عظمیٰ نہ صرف نااہل قرار دے چکی ہے بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں۔ شاہد خاقان عباسی احسان کا بدلہ چکا رہے ہیں چنانچہ مریم نواز کو بھی اسی پروٹوکول کا مستحق قرار دیا گیا ہے جو وزیراعظم کی بیٹی یا پارٹی سربراہ کو دیا جاتا ہے۔ خود مریم نواز بھی ان اختیارات کا بے دریغ استعمال کر رہی ہیں جو ان کے پاس ہیں ہی نہیں۔ جس حلقے سے ان کی والدہ اپنی عدم موجودگی میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں وہاں کے دوروں میں مریم نواز نہ صرف لوگوں کی درخواستیں وصول کرتی ہیں بلکہ موقع ہی پر احکامات بھی صادر کرتی ہیں۔ لیکن کس حیثیت میں؟ ظاہر ہے کہ ان کے احکامات کو پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت نظر انداز کرنے سے رہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ این اے 120 سے محترم کلثوم نواز کو کیوں منتخب کروایا گیا۔ اللہ انہیں صحت دے لیکن پاکستان آکر بھی شاید وہ اپنے حلقے میں فعال کردار ادا نہ کر سکیں۔ مریم صفدر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نیب کی تحقیقات پر مشتمل والیم۔10 دیکھا ہے، اس میں کچھ نہیں ہے۔ اس پر پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزار احسن نے سوال اٹھا دیا کہ والیم۔10 تک مریم کی رسائی کیسے ہوئی اور اگر وہ سچ بول رہی ہیں تو انہیں یہ خفیہ دستاویز کس نے اور کیوں دکھائی۔ اب ایک نئی بحث ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں یہ چھڑی ہوئی ہے کہ کس نے کس کو خوش کیا۔ نواز شریف نے گزشتہ جمعہ کو احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زرداری ’’کسی‘‘ کو خوش کرنے کے لیے انہیں گالیاں دے رہے ہیں۔ دوسری طرف سے اس مصرعے پر گرہ لگاتے ہوئے پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نے استغسار کیا ہے کہ نواز شریف صاحب! آپ نے کس کو خوش کرنے کے لیے زرداری سے ملاقات منسوخ کی؟ دونوں یہ بات جانتے ہیں کہ یہ ’’کس‘‘ کون ہے لیکن کوئی کھل کر بات نہیں کر رہا۔ دونوں کے اشارے اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہیں۔ گویا دونوں ایک دوسرے کو فوج کے اشاروں کا پابند قرار دے رہے ہیں۔ نواز شریف تو ججوں اور فوج میں گٹھ جوڑ کا الزام کھل کر لگا چکے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ نواز شریف پر فوج کے گملے کی پنیری ہونے کا الزام عاید کرتے ہیں، ان کی اپنی تاریخ بھی اس حوالے سے صاف ستھری نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی میجر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کے گملوں میں آنکھ کھولی اور اس حد تک کہ ایک آمر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کو بھٹو صاحب اپنا ڈیڈی کہتے رہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ 1972ء میں جمہوریت کے سرخیل ذوالفقار علی بھٹو فوج ہی کی مدد سے برسر اقتدار آئے اور دنیا کے پہلے سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے۔ اور پھر فوج ہی نے ان کو نکال باہر کیا۔ اور آگے چلیں تو بھٹو کی بیٹی اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کی والدہ بھی 1988ء میں فوج ہی کے تعاون سے اقتدار میں آئیں اور ایک فوجی ہیلی کاپٹر انہیں پہلے جی ایچ کیو لے گیا۔ اسی وجہ سے انہوں نے فوج کو تمغائے جمہوریت عطا کر کے جمہوریت کا رہا سہا وقار بھی خاک میں ملا دیا۔ یہ اس ملک کے سیاسی حقائق ہیں اور دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے ان کی ورق گردانی ضروری ہے۔ سیاسی اسموگ پنجاب میں نہیں پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔