جنگل کا قانون

378

خدیجہ خان
آج جنگل میں منگل کا سماں تھا رونق لگی ہوئی تھی آج جنگل کے بادشاہ کی شیر کی طرف سے اپنی سو سالہ سالگرہ کی خوشی میں تمام جانوروں کو دعوت تھی سب بے خوف خطر ایک دوسرے سے مل رہے تھے یعنی شیر اور بکری ایک گھاٹ میں پانی پی رہے تھے آج سب کو ایک طرف ایک دوسرے کو امان تھی۔ جنگل کے بادشاہ شیر اپنے تخت شاہی پر بیٹھے تمام جانوروں سے مبارکباد وصول کر رہے اور ان کی خیریت معلوم کر رہے تھے۔
ایک دم بادشاہ سلامت نے ایک مخصوص دھاڑ کی آواز نکالی جس سے معصوم جانوروں میں ایک خوف کی کیفیت پیدا ہوئی مگر بادشاہ کی آواز کی نرمی اور محبت بھرے لہجے کے باعث ان کا خوف فوراً ہی دور ہو گیا۔
شیر پہلے تو اپنے گزشتہ رویہ اور ظلم پر جانوروں سے معافی طلب کی اور اعلان کیا کہ آئندہ اس کی طرف سے کوئی ظلم نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی اور جانور کو ظلم کرنے دیا جائے گا اس اعلان سے کمزور جانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی بادشاہ سلامت نے اعلان کیا کہ اگر کوئی کسی کے ساتھ زیادتی کرئے گا اس کی سخت سزا ملے گی تاکہ ظالم کو آئندہ ظلم کرنے کی ہمت نہ ہو حق و انصاف کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو کہ میری صدارت میں کام کرے گی اور دیگر کچھ جانور اس کمیٹی کے ممبر ہوں گے اب آپ لوگ ایک گھنٹے کے اندر اندر اپنے کچھ نمائندوں کا انتخاب کرکے مجھے بتا دیں تاکہ اعلان کروایا جائے۔
جانوروں نے اپنے نمائندوں کے انتخاب کے لیے اجلاس شروع کیا لیکن ناموں کے انتخاب میں بات بڑھتی چلی گئی، گفتگو میں تیزی آئی پھر لڑائی شروع ہو گئی اور دعوت جنگ کا میدان بن گیا بادشاہ کو فوراً مداخلت کرنی پڑی شیر کی ایک ہی دھاڑ میں سارے جانور دبک کر بیٹھ گئے بادشاہ نے اعلان کیا کہ میں اپنے سو سالہ سالگرہ کی خوشی میں حقوق دینا چاہتا تھا مگر آپ میں اتحاد ہی نہیں، محبت نہیں، ایک دوسرے کے لیے دل میں ہمدردی نہیں۔
لہٰذا اب آپ کہ لوگ فوری طور پر یہاں ملے جلے جائیں میرا ہی حکم چلے گا۔ میرا ہی قانون چلے گا یعنی جنگل کا قانون ہی آپ کا مقدر ہے۔