جماعت اسلامی اور انتخابی دنگل

183

زاہد عباس
آل پاکستان سیاسی دنگل ایسوسی ایشن کے نمائندۂ خصوصی دریا خان نے حلقہ این اے فور پشاور کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پشاور کے حلقہ این اے فور سے مسلم لیگی گھرانے کے چشم و چراغ، اے این پی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے کے بھائی، اور چند ماہ قبل تک مسلم لیگی رہنے والے ارباب عامر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوگئے۔ رپورٹ سنتے ہی چیئرمین سیاسی دنگل ایسوسی ایشن نے ایک کمیٹی قائم کردی جس کی ذمے داری ہوگی کہ وہ اس بات کا پتا لگائے کہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدوار کا تعلق اصل میں کس جماعت سے ہے۔ ایک طرف دنگل ایسوسی ایشن نے کامیاب امیدوار کو بے نقاب کرنے کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا، تو دوسری طرف اس ضمنی انتخاب پر بھی دھاندلی کا شور بلند ہونے لگا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ دریا خان اور ان کی ساری ٹیم کب تک اصل حقائق لوگوں کے سامنے لاتے ہیں۔
رپورٹ کے بارے میں ہم بھی انتظار کرلیتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس معاملے پر اپنے مخبروں سے بھی معلومات حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے، کیوں کہ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ اگر کسی مسئلے کو حل نہ کرنا ہو تو اس پر کمیٹی بنادینی چاہیے۔ کمیٹی کے اعلان کے ساتھ ہی وہ مسئلہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ یعنی کمیٹی کے نتیجے پر پھر کمیٹی، اس پر ایک اور کمیٹی… اس سارے سلسلے میں کسی بھی مسئلے کی تحقیقات تو درکنار، کمیٹیاں خود مسئلے کی تہ تک پہنچتے پہنچتے مسئلہ بن جاتی ہیں۔
اب دنگل ایسوسی ایشن کا کیا بنتا ہے، وہی جانے۔ ہم نے اس الیکشن کے بارے میں جو معلومات حاصل کیں وہ عوام کے سامنے رکھنے کی جسارت کررہے ہیں۔ حلقہ این اے فور کے ووٹوں کی کل تعداد 352446 ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کے مطابق اس حلقے سے ارباب عامر 45 ہزار 700 سو سے زائد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جب کہ ان کے مدمقابل عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار خوش دل خان نے 24 ہزار 874 ووٹ لیے، تیسرے نمبر پر آنے والے مسلم لیگ (ن) کے ناصر خان موسیٰ زئی تھے جن کے ووٹوں کی تعداد 24 ہزار 790 ہے۔ پیپلزپارٹی 13000 ووٹ لے کر چوتھے، اور تحریک لبیک 9935 ووٹ کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہی۔ اس انتخاب میں جماعت اسلامی کے امیدار واصل فاروق کو 7668 ووٹ ملے۔ حلقے میں مجموعی طور پر14 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں 9 امیدوار آزاد حیثیت میں، جب کہ 5 نے سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر یہ الیکشن لڑا۔
این اے چار کا الیکشن ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں، اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کی طرف سے لگائے جانے والے دھاندلی کے الزامات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں جیتنے والے صاف اور شفاف الیکشن میں کامیابی کے دعوے، اور ہارنے والے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں، اور یہی سلسلہ آئندہ عام انتخابات تک جاری رہتا ہے۔ یہی کچھ ہم گزشتہ 70 سال سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ ہارنے والی پارٹیوں کے، جیتنے والوں پر اس قسم کے الزامات لگانے کا واحد مقصد اپنے ووٹروں کو اس بات کا یقین دلانا ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ورنہ ہم تو اس سیاسی میدان کے ہیرو تھے۔ بات بھی ٹھیک ہی ہے، سیاسی جماعتیں اسی قسم کی کارروائیوں سے اپنے ورکرز اور ووٹرز کو اپنے ساتھ جوڑے رکھتی ہیں۔ اسی کو سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔
لیکن این اے فور کے انتخابی نتائج کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنان و ہمدردوں نے جو رویہ اپنی ہی جماعت کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے اپنایا وہ انتہائی قابلِ افسوس ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں میں سے کچھ مواد مجھے بھی بھیجا گیا۔ یہاں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی جانب سے اپنی ہی جماعت سے کیے گئے سوالات تحریر کرکے لوگوں کے ذہنوں میں آنے والے منفی خیالات کا سدباب کرنا ہے۔ انسان کی سوچ پر پہرے لگانا ناممکن ہے اور کسی کی سوچ کو اپنے ذہن کے مطابق کرنا بھی کسی کے اختیار میں نہیں، لیکن انسانی فطرت کے مطابق غلط اور صحیح راستہ بتاکر بہت حد تک انسانی تصورات و خیالات میں تبدیلی لانا انسان کے بس میں ہوتا ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں ایک ایسے کارکن کا واٹس ایپ پیغام قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو مجھے خاصا دل برداشتہ لگا۔
وہ تحریر کرتا ہے کہ ’’جماعت اسلامی کو ایسی بیماری لاحق ہوگئی ہے جس کے لیے گزشتہ تیس برسوں سے ڈاکٹروں کی تلاش ہے، لیکن مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے کہ تشخیص نہیں ہو پارہا۔ اب وقت آگیا ہے کہ دوائیاںچھوڑ کر آپریشن کردیا جائے۔ این اے چار کے ہزاروں کارکنوں کو حلقے میں جمع کیا گیا جن میں خود میں بھی شامل تھا۔ ہم پندرہ دن مسلسل کمپین کرکے بھی صرف چند ہزار ووٹ لے سکے۔ اس ہار کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک غیر فطری عمل تھا۔ نہ جان نہ پہچان میں تیرا مہمان… جماعت کا یہی کام رہا ہے۔ یہ سارا سال کارکنوں کو لاحاصل مہمات میں تھکا دیتی ہے۔ نہ حلقے کی فکر، نہ ہی امیدوار کا پتا کہ فلاں حلقے میں کون سا امیدوار الیکشن لڑے گا۔ نہ کسی کا جنازہ، نہ غمی، نہ خوشی، نہ جرگہ اور نہ ہی عوام کے ساتھ کوئی ربط… اور زور اس بات پر کہ جب انتخابات آجائیں تو ڈور ٹو ڈور جاکر انتخابی مہم چلائی جائے۔ یہ کام ہم ہمیشہ کرتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی ناکام۔ جس طرح کی الیکشن مہم جماعت اور اس کے بے لوث کارکن چلاتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مگر بات یہ نہیں۔ الیکشن ایک سائنٹفک عمل ہے، اس کو سائنس کے مطابق جاننا ہوگا۔ اگر سیاست کرنی ہے تو اس کے گر جاننے ہوں گے۔ امراء کو حلقے کے کارکنان کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کرنی ہوگی اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ آخر کہیں تو خرابی ہے جسے تلاش کرنا ہوگا۔ 76 سال پرانی جماعت اور یہ رزلٹ! آخر کب تک ہم یہ کہتے رہیں گے کہ عوام ہار گئے۔ میں ہاروں یا جیتوں مگر مجھے تم سے پیار ہے… چاہے ہمیں ایک ووٹ ہی پڑے، ہم کو الیکشن لڑنا ہے… ہمیں ہار اور جیت سے کوئی غرض نہیں، ہمیں بس ایک ووٹر کے لیے نمائندہ کھڑا کرنا ہے۔ خدا کے لیے اس دنیا سے نکلیں، اب بہت ہوگیا۔ اتنے ووٹ تو کوئی بھی آزاد امیدوار لے لیتا ہے۔ پورا ایک مہینہ الیکشن کے دوران جماعتی سرگرمیاں معطل رہیں اور نتیجہ کچھ نہیں۔ تمام امراء کو توبہ تائب ہونا چاہیے اور جماعت کی اصل فکر کی طرف واپس آنا چاہیے۔ سیاست بھی کرنی چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
جماعت اسلامی پشاور کے اس کارکن کی جانب سے تحریر کیے گئے واٹس ایپ کے جواب میں میرے پاس بھی ایک تاریخی تحریر موجود ہے جو میں ضرور قارئین کی نذر کروں گا۔ اس سے پہلے کہ وہ تاریخی جملے تحریر کروں، میری ناقص عقل میں جو کچھ پاکستان کے طریقۂ انتخاب کے بارے میں موجود ہے، لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔ سب سے پہلے تو میرے بھائی اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ ہمارے ملک میں 70 سال سے حکمرانی کرنے والے کون لوگ ہیں۔ اگر تھوڑا سا بھی ذہن لگا کر سوچا جائے تو بات صاف ہوتی جائے گی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے یعنی پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان سے لے کر شاہد خاقان عباسی تک ہمارے ملک میں مسلم لیگ والوں کی ہی حکومت رہی ہے۔ وزیراعظم یا تو مسلم لیگی تھا یا کسی نہ کسی حوالے سے وہ مسلم لیگ سے وابستہ رہا۔
بھٹو صاحب نے گو کہ پیپلزپارٹی بناکر حکومت حاصل کی، لیکن اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایوب خان کے دور میں مسلم لیگ ہی کی وجہ سے وزیر تھے۔ اب کوئی نام اگر ہمارے سامنے آتا ہے تو وہ یوسف رضا گیلانی کا ہے۔ شاید یہ بات بھی قوم کو یاد ہوگی کہ یوسف رضا گیلانی مسلم لیگی ہی تھے، یعنی کوئی جماعت ایسی نہیں جس پر ان لیگیوں کا کنٹرول نہ ہو۔ اب یہ گلہ بے معنی ہے کہ جماعت اسلامی کو اقتدار نہیں ملتا۔ اگر سیاست اقتدار حاصل کرنے کے لیے کی جائے تو پھر کیا اپنی جماعت کا نام اسلامی مسلم لیگ رکھیں! کیوں کہ اس کے بغیر حکومت کا ملنا ناممکن ہے۔ اب دوسری صورت یہی رہ جاتی ہے کہ اپنے سیاسی سفر کو جاری رکھا جائے۔ حکومت یا آئین کے خلاف کوئی بھی عمل ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے، ہمیں اسی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اہداف حاصل کرنے ہیں، اور پھر حق بات کے لیے لوگوں کی تعداد کے بجائے کہنے والوں کے کردار دیکھے جاتے ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح چند افراد نے نجاشی کے دربار میں حق بات کرکے طاقتوروں کو شکست دی۔ کس طرح تین سو تیرہ کی ناتجربہ کار فوج نے ہزاروں کی تعداد میں جنگی سامان سے لیس کفار کو الٹے پائوں بھگا دیا۔ آپ کا کام دینِِ حق کے مطابق معاشرے میں اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہے، اور پھر ہمیشہ معاشرے میں حق پر چلنے والوں کی تعداد ظالموں اور جابروں کے مقابلے میں بہت کم ہوا کرتی ہے۔ راہِ حق پر چلتے رہنے سے ہی کامیابیاں ملا کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی سے تربیت حاصل کرکے مختلف جماعتوں میں جانے والے حکومت کرتے ہیں، گو کہ ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے، لیکن جماعت سے تربیت پانے والوں پر کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات نہیں لگائے جاسکتے۔ جماعت اسلامی سیاسی تحریک کے ساتھ ساتھ ایک ایسی تربیت گاہ بھی ہے جس سے نکلنے والے بے داغ سیاست کرتے ہیں۔ اس لیے اقتدار کبھی جماعت کی منزل نہیں رہا۔ جماعت اسلامی حکومت حاصل کرنے سے زیادہ بااختیار حکمرانی چاہتی ہے جس میں اقتدار کے مزے لوٹنے سے زیادہ لوگوں کو بااختیار کرنا اور ان کے مسائل کا حل ان کی دہلیز تک پہنچانا ہے۔ کسی بھی حلقے میں الیکشن لڑنے کا مطلب وہاں سے کامیابی حاصل کرنا ہی ہوا کرتا ہے اور اسی جذبے اور توانائیوں کے ساتھ سیاسی جماعتیں انتخابات لڑا کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی کی اس شکست پر کارکنان کا دلبرداشتہ ہونا نئی بات نہیں۔ ہر جماعت کے ساتھ اسی قسم کی صورت حال ہوا کرتی ہے۔ ظاہر ہے جو لوگ دل و جان سے محنت کرتے ہیں، صدمہ بھی انہی کو ہوتا ہے۔ ہمیں ایسی کی جانے والی تنقید پر لوگوں کو اصل بات کے بارے میں بتانا ہوگا۔ اقتدار میں نہ آنے کے باوجود جماعت اسلامی کا کردار سب پر عیاں ہے۔ کوئی حکومت جماعت اسلامی کی موجودگی میں غیر آئینی اور غیر شرعی کام کرنے کی جرأت نہیں کرتی۔ اقتدار کے بغیر بھی جماعت اسلامی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتی ہے۔ کسی بھی اندرونی و بیرونی پالیسی کا جماعت اسلامی کے تحفظات دور کیے بغیر نفاذ ناممکن ہے۔ یہ سب اُس ذات کی مہربانی کا نتیجہ ہے جس کے دیے ہوئے دین کے نفاذ کی کوششیں جماعت اسلامی کے منشور کا حصہ ہیں۔
اب اس طرزِ سیاست جس پر پشاور میں رہنے والے بھائی کو اعتراض ہے، کا تاریخی جواب:
سید مودودیؒ سے 1970ء کے الیکشن کے تناظر میں پوچھا گیا کہ جماعت اسلامی 30۔40 سال کی کوششوں کے باوجود اقتدار حاصل نہ کرسکی۔ کیا یہ جماعت اسلامی کے ناکام ہوجانے کا ثبوت نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا:
’’جماعت کو سچائی نے شکست نہیں دی، جھوٹ نے شکست دی ہے۔ جماعت اسلامی اگر سچائی سے شکست کھاتی تو فی الواقع اس کے لیے شدید ندامت کا مقام تھا۔لیکن چونکہ اس نے جھوٹ سے شکست کھائی ہے اس لیے اس کا سر فخر سے بلند ہے۔ وہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں لائی۔ وہ بداخلاقی کے مقابلے میں بداخلاقی نہیں لائی۔ اس نے سڑک پر رقص نہیں کیا۔ اس نے غنڈوں کو منظم نہیں کیا۔ اس نے برسرِ عام گالیاں نہیں دیں۔ اس نے لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کیے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ لوگ جھوٹے وعدوں کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ کچھ نہ کچھ آپ کو بھی کرنا چاہیے۔لیکن میں اُن سے برابر یہی کہتا رہا کہ چاہے آپ کو ایک نشست بھی نہ ملے لیکن آپ سچائی کے راستے سے نہ ہٹیں۔ وہ وعدہ جسے آپ پورا نہ کرسکتے ہوں وہ آپ نہ کیجیے۔ کوئی ایسا کام آپ نہ کیجیے جس کی وجہ سے خدا کے ہاں آپ پر کوئی ذمہ داری آجائے کہ آپ اس قوم کا اخلاق بگاڑ کر آئے ہیں۔ آپ بھی اس قوم کو جھوٹ، گالی گلوچ، اور دوسری اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کرکے آئے ہیں۔ جو ذمے داری آپ پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کا بتایا ہوا طریقہ ہے اس کے مطابق کام کریں۔ آپ اس بات کے مکلّف نہیں ہیں کہ اس ملک کے اندر ضرور اسلامی نظام قائم کریں۔ اسلامی نظام کا قیام تو اللہ تعالیٰ کی تائید اور توفیق پر منحصر ہے۔ اُس قوم کی صلاحیت اور استعداد پر منحصر ہے جس کے اندر آپ کام کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس کو اس قابل سمجھتا ہے یا نہیں کہ اسے اسلامی نظام کی برکتوں سے مالامال کرے یا تجربوں کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے، جن کی ٹھوکریں آج وہ کھا رہی ہے۔ آپ کا کام اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر محنت کرنا ہے، جان کھپانی ہے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی کریں گے تو معتوب ہوں گے۔ اس میں اگر کوتاہی نہیں کرتے تو اللہ کے ہاں کامیاب ہوں گے خواہ دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔‘‘
( تصریحات۔ ص 277-278)