زمانے کے انداز بدلے گئے

326

قدسیہ ملک

بہت سی دعاؤں، آرزوؤں اور امیدوں کے درمیان جب پل کر جوان ہوئی تو ماں کو رشتے کی فکر ستانے لگی۔ فکر کیوں نہ ہوتی! آخر کو عورت ذات تھی۔ پرائے گھر کا ہونا تھا۔ باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، ماں کے دل کا نور… بڑے چاؤ اور محبتوں میں پل کر جوان ہوئی تھی۔ ماں کے سامنے اپنی جوانی کے سبھی واقعات ایک ایک کرکے ذہن میں آتے تھے۔ واقعی اس کا شوہر ایک نفیس، باکردار، خوش اخلاق اور ذمہ دار مرد تھا جس نے بیوی اور ماں کے حقوق کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی بہت احسن انداز میں تربیت کی تھی۔ ’’بیٹیاں تو پرائی ہوتی ہیں، اس کے زیادہ لاڈ مت اٹھایا کیجیے‘‘ ماں فکرمندی کے عالم میں باپ کو سمجھاتی۔ ’’ارے میری بیٹی بہت سمجھدار ہے، تم دیکھنا جہاں بھی جائے گی گھر کا نام روشن کرے گی۔ اور پھر ماں دن بھر کی داستان کے ساتھ کچھ رشتے بھی بتاتی جاتی، جنہیں باپ کچھ ڈر، کچھ خوف، کچھ سوچتے ہوئے رد کردیتا۔ بالآخر دونوں ایک رشتے پر راضی ہوگئے۔ لڑکا کچھ پڑھا لکھا تھا، اپنا کاروبار تھا۔ تین مہینے میں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔ سب کچھ بالکل صحیح چل رہا تھا۔ بس آنا جانا تھوڑا مشکل تھا، سو ماں باپ بھی چپ رہے کہ لڑکیاں اپنے سسرال میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ اچانک ایک دن بیٹی کے سسرال سے فون آیا ’’تیری بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے‘‘۔ ماں نے سینہ پیٹ لیا، باپ کو چپ لگ گئی۔ ’’نہیں میری بیٹی ایسا نہیں کرسکتی‘‘۔ وہ دونوں روتے دھوتے بیٹی کے سسرال گئے۔ سسرال والوں کا رویہ بہت ہتک آمیز تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا؟ شوہر کے ہوتے ہوئے کسی کے ساتھ بھاگ جانا سراسر رسوائی ہے۔ ’’میں تو پہلے سال ہی سمجھ گئی تھی لیکن کچھ نہ کہتی تھی، اب دیکھا کیا انجام ہوا! کیا تربیت کی تھی؟ ہائے میرے بیٹے کی تو زندگی برباد ہوگئی۔ اس نامراد کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ساس نے نواسی نازش کو نانی کی طرف اچھالا۔ وہ سہم کر اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگی جو منہ بسور کر گھر سے باہر نکل گیا۔ نانی ننھی نواسی کو آنکھوں میں آنسو اور دل میں کرب لیے خاموشی سے اپنے ساتھ لے آئی۔ باپ نے دوسرے دن تھانے میں بیٹی کی رپورٹ درج کروا دی۔ ’’بابا تیری بیٹی بھاگ گئی ہے۔ ہم نے اس کے سسرال جاکر پوچھا تھا‘‘۔ دوسرے دن تھانے آنے پر دور سے ہی تھانے دار نے اسے صدا لگائی۔ ’’نہیں صاحب جی میری بچی ایسی نہیں تھی۔ میں یہ نہیں مان سکتا۔ آپ اس کے شوہر سے پوچھیں، وہ سب بتادے گا، میں آپ سے سچ کہتا ہوں یہ سب ڈھکوسلے ہیں‘‘۔ اس کے باپ نے روتے ہوئے تھانیدار سے التجا کی۔ ’’او بابا! گھر جاؤ، ایس پی صاحب راؤنڈ پر ہیں‘‘۔ اور باپ کچھ سوچتے ہوئے خاموشی سے تھانے سے باہر آکھڑا ہوا۔ ایس پی کی گاڑی رکتے ہی غموں کا مارا باپ بیٹی کا غم سنانے لگا۔ اس کی التجا میں اس قدر سوز تھا کہ ایس پی نے فوری متعلقہ علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے شوہر کو گرفتار کرلیا۔ تھانے پہنچ کر دو چار چھترول لگتے ہی اُس نے سچ اگل دیا۔ وہ بیٹی سسرال والوں کے ظلم و ستم کا ایسا نشانہ بنی کہ لاش بھی ٹکڑے کرکے گھر کے قریب زیرتعمیر مکان میں دفنا دی گئی تھی۔کم جہیز لانے پر روز طعنے سننے کے باوجود والدین سے کبھی کچھ نہ کہا تھا۔ لیکن قدرت کو شاید اس ظالم خاندان کے ظلم کا پردہ فاش کرنا تھا۔ جبھی تو باپ کے دل میں رب نے یہ بات ڈالی۔ یہ واقعہ ایک سال پہلے جنوبی پنجاب کے علاقے میں پیش آیا۔
پچھلے ہفتے کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرلیا۔ ایس پی گلشن اقبال غلام مرتضیٰ نے بتایا کہ مسمات کنیز، زوجہ نذیر حسین نے سی پی ایل سی کو اطلاع دی کہ اس کے شوہر کا ذہنی توازن درست نہیں جس کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اس کی چار بیٹیاں تھیں جن میں سے تین بیٹیاں یکے بعد دیگرے فوت ہوگئیں، صرف ایک آٹھ سالہ بیٹی بچی تھی۔ اس عورت کے شوہر کا ایک چچازاد جو اس کے گھر آتا رہتا تھا، اس دن بھی بچی کو ٹافی دلانے کا بہانہ کرکے لے گیا۔ دو دن بعد اس کا فون آیا کہ ایک لاکھ روپے کا بندوبست کردو ورنہ بچی کو مار دوں گا۔ اس کے فون کے دو دن بعد کچرے کے ڈھیر سے بچی کی لاش ملی، جسے گلا گھونٹ کر قتل کیاگیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے چودہواں میں ذاتی دشمنی کے باعث 16سالہ معصوم لڑکی سے عبرتناک، شرمناک انتقام سے کون واقف نہیں۔ اخبارات کے مطابق ظلم کا یہ رقص مخالف خاندان کی لڑکی پر پورے ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
آج کے ہمارے معاشرے میں انسانیت کی یہ تحقیر بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔کہیں عورت اس ظلم کی چکی میں مرد کے ہاتھوں پستی ہے، کہیں مرد مرد کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنتا ہے اور کہیں یہ مرد عورت کے ہاتھوں مظلوم ہے۔ میری اور آپ کی آنکھیں آئے روز کسی اخبار، کسی چینل، کسی خبر میں انسانیت کا جنازہ اٹھنے کا منظر دیکھتی رہتی ہیں۔
فائزہ الیاس ڈان اخبار میں لکھتی ہیں کہ پاکستان میں ہر سیکنڈ میں کوئی نہ کوئی خاتون گھریلو تشدد کا شکار ہوجاتی ہے۔ آغا خان ہسپتال کے زیراہتمام منعقدہ تین روزہ قومی صحت و سائنس سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر تزئین سعید علی نے کہا کہ گھریلو تشدد کے باعث عورت کی طبعی اور ذہنی کیفیت مکمل یا جزوی طور پر شدید متاثر ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔
مشہور ابلاغی محقق ڈاکٹر نثار احمد زبیری اپنی کتاب ’’ابلاغ عامہ، افکار و نظریات‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ذرائع ابلاغِ عامہ اور خاص طور پر ٹیلی ویژن اور فلمیں تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے ساتھ یہ کام بھی کرتی ہیں کہ ناظرین کو کوئی کام دکھاکر انہیں وہ کام کرنا سکھادیا جائے۔‘‘
اس ضمن میں ایک مشہور تحقیق سماجی محقق نیل ملر اور جان ڈولرڈ نے کی ہے۔ انہوں نے مشاہداتی آموزش کا نظریہ(Learning by Observation theory) پیش کیا جس میں اسی دیکھنے اور عمل کرنے کے نظریے کو واضح کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جتنا گہرا مشاہدہ ہوگا اتنی ہی تیزی سے عمل ہوگا۔ اس ضمن میں انہوں نے چند نکات پیش کیے: (1) جب پیغام میں دیکھنے کے لیے کچھ واضح طور پر موجود ہو۔ (2) جب مشاہدہ کرنے والے اپنے طور پر سیکھی ہوئی بات بیان کریں یا اس پر عمل کرکے دکھائیں۔ (3) پیغام مؤثر اسی وقت ہوگا جب سیکھی ہوئی بات پر عمل کرکے دکھایا جائے۔
اب ہم پاکستانی معاشرے کو اس نظریے کی روشنی میں دیکھیں تو مقصد صاف اور واضح ہوجاتا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اور بالعموم پرنٹ و سوشل میڈیا پر کیے جانے والے ہر فعل و عمل کا تعلق اسی نظریے کی روشنی میں جانچنے کی چھوٹی سی کوشش کرتے ہیں:
(1) ان ڈراموں اور فلموں میں مجرم، جرائم اور مجرمانہ ذہنیت کا پرچار جس تواتر سے ہوتا ہے ایک عام فرد کے نزدیک اس پر عمل کرنے کی قوت میں اسی قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے جرم کی داستان،کرائم رپورٹنگ وغیرہ جیسے پروگرام تواتر سے چینلوں پر نشر کیے جاتے ہیں۔
(2) ہمارے پاکستانی ڈراموں میں عورت کے لباس کو مختصر کرتے کرتے اتنا مختصر کیا جاچکا ہے کہ ان ڈراموں کی بدولت پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی معاشرے کے ہر طبقے، ہر گروہ میں واضح دیکھی جاسکتی ہے۔
(3) خاندانی نظام کو منتشر کرنا اور اس کا شیرازہ بکھیرنا پاکستانی ڈرامے میں معمولی بات بن چکی ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں ہر شوہر کسی اور عورت کو، اور ہر بیوی کسی اور مرد کو اپنے شوہر سے زیادہ اپنے دکھ درد کا ساتھی سمجھتی ہے۔
(4) پاکستانی نیوز چینلز پر ہونے والے قومی و بین الاقوامی مباحثوں میں بھی جو زبان سیاست دان اور بیوروکریٹ استعمال کرتے ہیں، وہی زبان عمومی طور پر عوام میں وقوع پذیری کے اثرات کے باعث اپنا اثر دکھا رہی ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی انحطاط و اخلاقی گراوٹ کا شکار ہورہا ہے۔
(5) زندگی میں صرف عیش و آرام اور بقول بابر ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کے مصداق ’’کھالے، پی لے، جی لے‘‘ کی باربار تکرار کے باعث خوفِ آخرت رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہا ہے۔
(6) ڈراموں میں خاندانی رشتوں اور خاص طور پر ددھیالی، سسرالی رشتوں سے بے تحاشا نفرت دکھائی جاتی ہے جس کے سبب ون یونٹ فیملی کا تصور عام ہوگیا ہے، جس کی توجیہ کے لیے اسلام کا سہارا لیا جاتا ہے۔
(7) ان ڈراموں میں رشوت، سفارش، جھوٹ، لالچ، دھوکا، فریب، مکاری کو مصلحت کے پردے میں لپیٹ کر اتنا خوشنما اور خوب صورت بناکر دکھایا جاتا ہے کہ عوام الناس کے نزدیک ان افعال میں گناہ کا تصور قدرے کم ہوگیا ہے۔ اب لوگوں کے نزدیک مصلحت کے تحت ان سب کاموں کی ادائیگی میں کوئی قباحت نہیں۔ اس سے معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہے۔
(8) شراب نوشی و جوا، اور مختلف منشیات کا استعمال دکھاکر پاکستانی ڈراموں میں ان تمام جرائم و گناہوں سے ہونے والی جھجھک تقریباً ختم ہوگئی ہے۔
ان پاکستانی ڈراموں میں ’’انکار‘‘، ’’باغی‘‘، ’’تیری رضا‘‘، ’’محبت تجھ سے نفرت ہے‘‘، ’’صلہ ڈر سی جاتی ہے‘‘، ’’کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی‘‘، ’’چیونگم‘‘، ’’اڈاری‘‘، ’’میں ماں نہیں بننا چاہتی‘‘، اور پاکستان میں کروڑوں کا بزنس کرنے والی انڈین فلم ’’عاشقی 2‘‘ شامل ہیں۔
یہ تمام حقائق آپ کے سامنے دہرانے یا آشکار کرنے کا مقصد کسی خاص گروہ یا پارٹی کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں، بلکہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کی جانے والی تجزیاتی رپورٹ بنانے کا واحد مقصد عوام کو کسی بھولے سبق کی یاددہانی،کسی مقصد کی جانب توجہ دلانا ہوتا ہے۔
ہمیں لوگوں کو اس بات کی آگہی دینی ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے پاس جینے کا ایک واضح مقصد موجود ہے۔ یہ یہود ونصاریٰ کی ترجمانی کرنے والے الیکٹرانک میڈیا مالکان سوائے چند ایک کے، یہود کی خوشنودی کی خاطر معاشرے کو اخلاقی گراوٹ کا اس حد تک شکار کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر رشتوں کا تقدس، محبت، اخوت، باہمی الفت اور باہمی احترام کی تمام کیفیات ختم ہوجائیں۔ اور وہی مادر پدر آزاد یورپی معاشرہ بن جائے جس کے لیے اقبال نے کہا تھا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ہمیں اس ناپائیدار معاشرے سے بچانے کے لیے لوگوں میں آگہی پیدا کرنی ہے، انہیں بیدار کرنا ہے۔ ورنہ اس پاکستانی معاشرے کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے تمام مورچے تیار اور تمام نیزے کسے جاچکے ہیں۔ بقول شاعر
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا