کیا مال آزمائشی ہے…؟

1065

عابد علی جوکھیو
خالقِ کائنات نے انسان کو جہاں بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں، وہیں ان نعمتوں کو انسان کے لیے آزمائش بھی بنایا ہے، اور آزمائش بنانے کی وجہ بھی خالق نے خود ہی بتادی کہ وہ اس کے ذریعے سے آزمانا چاہتا ہے کہ ان نعمتوں کا کون شکر کرتا ہے اور کون ان پر اتراتا ہے۔ اسی طرح ان نعمتوں کے حصول کے ذرائع بھی انسان کو بالکل واضح طور پر بتادیئے کہ وہ ان نعمتوں کے حصول کے لیے جائز راستہ ہی اپنائے۔ لیکن خالق نے انسان کی مزید آزمائش کے لیے جائز و ناجائز کے درمیان بہت سی مشتبہ اشیا بھی رکھ دیں۔ نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال و حرام بالکل واضح ہیں، اور ان کے درمیان بھی بہت سے مشتبہ امور ہیں، اب کامیاب وہی ہوگا جو اپنے آپ کو ان مشتبہات سے بچاکر درست راستہ اختیار کرے (متفق علیہ)۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کے لیے کئی مقامات پر حلال و حرام کے درمیان بہت کم فرق رکھا ہے کہ انسان حلال کے حصول میں اس بات کو ضرور مدنظر رکھے کہ کہیں وہ حرام کی طرف تو نہیں جارہا، اور اس کی پوری محنت ضائع تو نہیں ہورہی! اسلامی تربیت کا یہی وہ اصل نکتہ ہے جو ہر عمل کے وقت سامنے رہے تو انسان بہت سی برائیوں سے بچ سکتا ہے۔ حلال امور میں اتنی شدت اس لیے ہے کہ انسان اپنے معاملات کی درستی کا خود خیال رکھے۔ حرام سے بچنا تو اس کے لیے ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ حلال میں بھی احتیاط کے پہلو کو سامنے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مال کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے حلال قرار دیا ہے۔ اسلام میں مال و دولت کمانے کو ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا بلکہ رزقِ حلال کے لیے محنت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا حبیب قرار دیا ہے۔ اسی طرح انسانی تاریخ میں بہت سے انبیاء اور صالحین ایسے گزرے ہیں جن کے پاس بے شمار دولت تھی، اسی طرح صحابہ کرام میں بھی اکثر مالدار تھے، بہت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مالدار تھے اور بعض اسلامی ریاست کے قیام کے بعد فراوانی کی وجہ سے ہوئے۔ الغرض مال بجائے خود ناپسندیدہ نہیں، بلکہ اسلام تو اتنا مال رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ انسان دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے بچ سکے۔ بلاضرورت یا بغیر مجبوری کے اسلام سوال کرنے سے منع کرتا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں اس پر وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ لیکن دولت جائز اور پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے بہت بڑا فتنہ اور آزمائش بھی ہے۔ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی فرمودات میں اس حد کا تعین کردیا جس سے ایک پسندیدہ عمل فتنے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(1) مال انسان کا اچھا ساتھی ہے، بشرطیکہ وہ اس میں سے اللہ کا اور اس کے بندوں کا حق ادا کرے۔ اور اگر حق ادا نہیں کرتا تو یہی مال اس کے لیے وبالِ جان ہے۔ (تفسیر معالم العرفان)
(2) ہر امت کا ایک فتنہ تھا، اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ (مسند احمد)
(3) مجھے تم پر فقر کا خوف نہیں۔ مجھے تمہارے متعلق یہ ڈر ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کردی جائے گی، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی۔ پھر تم اس میں رغبت کرنے لگو گے جس طرح اُن لوگوں نے کی، پھر وہ تم کو ہلاک کردے گی جس طرح پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ (تفسیر معالم)
(4) اگر آدمی کے پاس مال سے بھرے ہوئے دو میدان اور دو جنگل ہوں تو وہ تیسرا بھی چاہے گا۔ آدمی کا پیٹ تو بس مٹی سے بھرے گا (مال و دولت کی اس نہ ختم ہونے والی ہوس اور بھوک کا خاتمہ بس قبر میں جاکر ہوگا)۔ اور اللہ اُس بندے پر عنایت اور مہربانی کرتا ہے جو اپنا رخ اور اپنی توجہ اُس کی طرف کرلے۔ (معارف الحدیث)
(5) آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے (اور بڑھاپے کے اثر سے اس کی ساری قوتیں مضمحل ہوکر کمزور پڑجاتی ہیں) مگر اس کے نفس کی دو خصلتیں مزید جوان اور طاقتور ہوتی رہتی ہیں: ایک دولت کی حرص، اور دوسری عمر کی حرص۔ (معارف الحدیث)
(6) دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا مال و منصب کی حرص انسان کی دینداری کو پہنچاتی ہے۔(معارف الحدیث)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی مال کی پاکیزگی کی حد اور نیک مالدار کے اوصاف بیان کیے ہیں کہ:
(ترجمہ)’’اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔‘‘(الذٰریٰت، 19)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ایک طرف اپنے رب کا حق وہ اس طرح پہچانتے اور ادا کرتے تھے، دوسری طرف بندوں کے ساتھ ان کا معاملہ یہ تھا کہ جو کچھ بھی اللہ نے ان کو دیا تھا، خواہ تھوڑا یا بہت، اس میں وہ صرف اپنا اور اپنے بال بچوں ہی کا حق نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کو یہ احساس تھا کہ ہمارے اس مال میں ہر اُس بندۂ خدا کا حق ہے جو ہماری مدد کا محتاج ہو۔ وہ بندوں کی مدد خیرات کے طور پر نہیں کرتے تھے کہ اس پر اُن سے شکریے کے طالب ہوتے اور ان کو اپنا زیر بارِ احسان ٹھیراتے، بلکہ وہ اسے اُن کا حق سمجھتے تھے اور اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ پھر ان کی یہ خدمتِ خلق صرف انہی لوگوں تک محدود نہ تھی جو خود سائل بن کر ان کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتے، بلکہ جس کے متعلق بھی ان کے علم میں یہ بات آجاتی تھی کہ وہ اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اُس کی مدد کے لیے وہ خود بے چین ہوجاتے تھے۔ کوئی یتیم بچہ جو بے سہارا رہ گیا ہو، کوئی بیوہ جس کا کوئی سہارا نہ ہو، کوئی معذور جو اپنی روزی کے لیے ہاتھ پاؤں نہ مار سکتا ہو، کوئی شخص جس کا روزگار چھوٹ گیا ہو یا جس کی کمائی اس کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہورہی ہو، کوئی شخص جو کسی آفت کا شکار ہوگیا ہو اور اپنے نقصان کی تلافی خود نہ کرسکتا ہو، غرض کوئی حاجت مند ایسا نہ تھا جس کی حالت ان کے علم میں آئی ہو اور وہ اس کی دستگیری کرسکتے ہوں، اور پھر بھی انہوں نے اس کا حق مان کر اس کی مدد کرنے سے دریغ کیا ہو۔ یہ تین صفات ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو متقی اور محسن قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہی صفات نے ان کو جنت کا مستحق بنایا ہے۔ ایک یہ کہ آخرت پر ایمان لاکر انہوں نے ہر اُس روش سے پرہیز کیا جسے اللہ اور اس کے رسول نے اُخروی زندگی کے لیے تباہ کن بتایا تھا۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کی بندگی کا حق اپنی جان لڑا کر ادا کیا اور اس پر فخر کرنے کے بجائے استغفار ہی کرتے رہے۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کے بندوں کی خدمت اُن پر احسان سمجھ کر نہیں بلکہ اپنا فرض اور اُن کا حق سمجھ کر کی۔
اس مقام پر یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ اہلِ ایمان کے اموال میں سائل اور محروم کے جس حق، کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جسے شرعاً ان پر فرض کردیا گیا ہے، بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحبِ استطاعت مومن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے اور اپنے دل کی رغبت سے اس کو ادا کرتا ہے بغیر اس کے کہ شریعت نے اسے لازم کیا ہو۔ ابن عباس، مجاہد اور زید بن اسلم وغیرہ بزرگوں نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے۔ درحقیقت اس ارشادِ الٰہی کی اصل روح یہ ہے کہ ایک متقی و محسن انسان کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا کہ خدا اور اس کے بندوں کا جو حق میرے مال میں تھا، زکوٰۃ ادا کرکے میں اس سے بالکل سبکدوش ہوچکا ہوں، اب میں نے اس بات کا کوئی ٹھیکہ نہیں لے لیا ہے کہ ہر ننگے، بھوکے، مصیبت زدہ آدمی کی مدد کرتا پھروں۔ اس کے برعکس جو اللہ کا بندہ واقعی متقی و محسن ہوتا ہے وہ ہر وقت ہر اُس بھلائی کے لیے جو اُس کے بس میں ہو، دل وجان سے تیار رہتا ہے، اور جو موقع بھی اُسے دنیا میں کوئی نیک کام کرنے کے لیے ملے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس کے سوچنے کا یہ انداز ہی نہیں ہوتا کہ جو نیکی مجھ پر فرض کی گئی تھی وہ میں کرچکا ہوں، اب مزید نیکی کیوں کروں؟ نیکی کی قدر جو شخص پہچان چکا ہو وہ اسے بار سمجھ کر برداشت نہیں کرتا بلکہ اپنے ہی نفع کا سودا سمجھ کر زیادہ سے زیادہ کمانے کا حریص ہوتا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
سورہ المعارج کی آیت 24 ’’جن کے مالوں، میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘ کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ سائل و محروم کی تعریف بیان کرتے ہیں کہ
’’سائل سے مراد پیشہ ور بھیک مانگنے والا نہیں بلکہ وہ حاجت مند شخص ہے جو کسی سے مدد مانگے۔ اور محروم سے مراد ایسا شخص ہے جو بے روزگار ہو، یا روزی کمانے کی کوشش کرتا ہو مگر اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں، یا کسی حادثے یا آفت کا شکار ہوکر محتاج ہوگیا ہو، یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے متعلق جب معلوم ہوجائے کہ وہ واقعی محروم ہیں تو ایک خدا پرست انسان اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ وہ اس سے مدد مانگیں، بلکہ اُن کی محرومی کا علم ہوتے ہی وہ خود آگے بڑھ کر اُن کی مدد کرتا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
ان آیات اور احادیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مال فی نفسہٖ آزمائش نہیں، اور نہ ہی بری چیز ہے۔ اس میں احتیاط صرف اتنی کرنی ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس کی محبت سے بچائے، اسی کا ہوکر نہ رہ جائے، کیونکہ مال سب کچھ نہیں، بڑے بڑے مالدار لمحوں میں فقیر بن جاتے ہیں۔ ماضی کی نہیں، آج بھی ایسی زندہ مثالیں موجود ہیں کہ جو کل تک تو خوب مالدار تھے لیکن آج دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں… اسی لیے کہا گیا کہ کہیں یہ مال و دولت تمہیں اللہ سے غافل نہ کردے۔ اللہ سے غافل ہونے کا حقیقی مطلب اپنے آپ سے غافل ہونا ہے، اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کبھی انسان اس رویّے کا نتیجہ اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے تو کبھی آخرت میں … اس لیے ایسا نہ ہو کہ انسان مال کی محبت میں سب کو بھول جائے، بلکہ مال سے زیادہ اللہ اور اس کی مخلوق سے محبت کرے، اور اس محبت کا اظہار اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ضرورت مندوں کو دے کر کرے۔