حبیب الرحمن
صدر مملکت کا تعلق نہ صرف سیاسی پارٹی بلکہ کاروباری طبقے سے بھی ہے اس لیے انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ عوامی مسائل کیا ہوتے ہیں۔ سرکاری و نجی شعبے کے ملازمین کس طرح کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ لیبر کورٹس ہوں یا دیگر دیوانی عدالتیں محنت کش طبقے کو حصول انصاف کے سلسلے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے پیش نظر صوبائی و وفاقی محتسب سیکرٹریٹس کے علاوہ حکومتی سطح پر ہیومن رائٹس سیل کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ کے ماتحت ایچ آر سی بھی عوامی مسائل کے حل کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ محتسب سیکرٹریٹس میں کیوں کہ بیش تر ریٹائرڈ جج ہی ہوتے ہیں اس لیے وہ صوبائی یا وفاقی اداروں کے معاملات پر زیادہ دباؤ برقرار نہیں رکھ پاتے لیکن پھر بھی متاثرین کو دیر بدیر ریلیف مل ہی جاتا ہے۔ پہلے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کا دائرہ کار خاصا وسیع تھا۔ پی آئی اے پاکستان اسٹیل اور پی آئی ڈی سی اور اسی طرح کے وفاقی اداروں کے ملازمین کی داد رسی ہوجاتی تھی اور انہیں ریلیف فراہم کردیا جاتا تھا مگر اب محتسب اعلیٰ کے پر بھی کتر دیے گئے ہیں اور صدارتی حکم کے تحت کچھ اداروں کے ملازمین کو ان کے سروس میٹر سننے سے روک دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اداروں کے ستائے ہوئے ملازمین مالی بدحالی کے سبب نہ عدالتوں میں جاسکتے ہیں اور نہ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں شنوائی، یہ کیسا انصاف ہے؟ کے الیکٹرک کے صارفین اپنی روداد محتسب سیکرٹریٹ کو سنا کر وہاں سے ریلیف لے لیا کرتے تھے اب متاثرہ صارفین کے معاملات پر کچھ کارروائی کرنے کے بجائے نئی پالیسی کے تحت ایک لیٹر کے ذریعے کے الیکٹرک حکام سے کہا جاتا ہے کہ وہ شکایت کنندہ کے معاملے کو مناسب طریقے سے حل کردیں۔ جب کہ متعلقہ حکام اس لیٹر کو قطعی خاطر میں نہیں لاتے جس سے عوامی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے۔ قانون و انصاف کا لا ڈویژن ایچ آر سی کے دفاتر کی کارکردگی کا جائزہ لے کیوں کہ وہ قطعی طور پر اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو انصاف فراہم کرنے والے وہ تمام ادارے جو قومی خزانے کی کثیر رقوم سے چل رہے ہیں انہیں فعال و متحرک کیا جائے تا کہ مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن ہوسکے۔