غیر معیاری ٹی وائٹنر

143

یوں تو اکیسویں صدی سائنس کی صدی کہلاتی ہے اور روز بروز نئی سے نئی ایجاد ہورہی ہیں۔ سائنس کا استعمال آسانی کے ساتھ ساتھ مشکلات کا سبب بھی بنتا جارہا ہے۔ ملاوٹ نے ہر قدرتی چیز کو اس کی حقیقی شکل سے بگاڑ کر ملاوٹی شکل میں ڈھال دیا ہے اور یوں ملاوٹ ہمارے خون میں شامل ہوتی جارہی ہے۔ جعلی اور دو نمبر چیزوں سے بازار بھرے پڑے ہیں۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ تو سنا ہی تھا لیکن دودھ کی شکل جیسا یہ وائٹنرچائے کو رنگنے والا ایک جادوئی محلول ہے جو پل بھر میں کالی چائے کو خوبصورت اور منفرد رنگ بخش دیتا ہے اور ذائقے میں بھی کوئی فرق آنے نہیں دیتا، رنگ اور ذائقے دونوں اعتبار سے یہ چائے پینے والوں کے لیے بہترین ہے، لیکن صحت کے اعتبار سے بات اس سے برعکس ہے کیوں کہ تمام ٹی وائٹنرمیں استعمال ہونے والا مخصوص کیمیکل اور تمام اجزا دور دور تک دودھ سے تعلق نہیں رکھتے اور صحت کے لیے نہایت مضر ہیں، جس کے نتیجے میں عوام ہڈیوں کے مختلف امراض میں جکڑتے جارہے ہیں۔ ملک کی تمام آبادی پڑھی لکھی نہیں جس کے باعث لوگ ٹی وائٹنر کو دودھ سمجھتے ہوئے چائے کے علاوہ پینے کے استعمال میں بھی لاتے ہیں۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ صحت کے معاملات میں فروخت ہونے والی تمام اشیا کو باقاعدہ صحیح لیبارٹری معائنے کے بعد لوگوں تک پہنچایا جائے تا کہ عوام تک صحت بخش غذا پہنچ سکے۔
کنزہ حنیف، شعبہ معاشیات کراچی یونیورسٹی