60 سال عمر پوری کرکے پنشن کے حقدار قرار پانے والوں کی پنشن کی رقم یعنی 5250 روپے ماہانہ اتنی کم ہے کہ موجودہ مہنگائی میں یہ ایک فرد کے لیے بھی ناکافی ہے۔ ہماری معاشرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مرد کی ذمے داری میں تا زندگی اس کی بیوی بھی شامل رہتی ہے۔ اوپر سے عمر کے اس حصے میں خاندان کے سرپرست کی ذمے داریاں اور طبی مسائل سے نبرد آزما جیسے مسائل ہم پنشنرز کے بوجھ میں کئی گنا اضافہ کردیتے ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے نجی اداروں کے رجسٹرڈ پنشنرز کی ماہانہ پنشن میں اضافہ نہیں کیا گیا جب کہ اس دوران اسمبلی کے اراکین سمیت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سو فی صد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے۔ پنشن میں اضافہ نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ EOBI کے پاس فنڈز کی کمی ہے یہ جواز کتنا بودا ہے کیوں کہ اگر اس ادارے کی بات ذرا گہرائی میں جا کر دیکھی جائے تو معلوم ہوگا اس ادارے کے وسائل اور فاضل اربوں روپوں کو ذاتی مفاد کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کئی مقدمات برسوں سے نیب کے توسط سے عدالتوں میں فیصلوں کے منتظر ہیں اور اگر اس وقت بھی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مزدوروں کو پنشن تقسیم کرنے والے ادارے کے مجموعی اخراجات میں سے سالانہ انتظامی اخراجات پنشن تقسیم کرنے پر مامور عملہ اپنی خدمات کے عوض اپنے لیے پنشن کی وہ سہولتیں حاصل کررہا ہے جو سرکاری ملازمین کو حاصل ہیں۔
میری ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ رجسٹرڈ پنشنرز کی ماہانہ پنشن کو بارہ ہزار روپے کیا جائے۔ پنشنرز کو مع بیوی ہیلتھ کارڈ جاری کیا جائے، پنشن بک کے ساتھ پنشنرز کارڈ جاری کیا جائے جس کی بنیاد پر ریل میں رعایتی کرایہ وصول کیا جائے اور تمام شعبہ زندگی میں ان سے اولڈ ایج سٹیزن کے طور پر ترجیح سلوک کا حقدار سمجھا جائے۔
آخی بہادر خان، اولڈ مظفر آباد کالونی لانڈھی کراچی