مساوات کا درست تصور

277

ہمارے دین میں مرد اور عورت دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، دونوں نوعِ انسانی کے دو مساوی حصے ہیں، تمدن کی تعمیر اور تہذیب کی تشکیل اور انسانیت کی خدمت میں دونوں برابر شریک ہیں، دل دماغ و عقل و جذبات و خواہشات اور بشری ضروریات دونوں یکساں رکھتے ہیں، ہر صالح تمدن کا فرض یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی فطری استعداد اور اصلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کا موقع دے، انہیں علم اور اعلیٰ تربیت سے مزین کرے، انہیں بھی مزدوروں کی طرح تمدنی اور معاشی حقوق عطا کرے اور انہیں معاشرے میں عزت کا مقام بخشے تا کہ اُن میں عزتِ نفس کا احساس پیدا ہو اور ان کے اندر بہترین بشری صفات پیدا ہوں۔ جن قوموں نے ان کی مساوات سے انکار کیا ہے اور اپنی عورتوں کو جاہل و غیر تربیت یافتہ، ذلیل اور محروم رکھا ہے وہ خود پستی کے گڑھے میں گر گئیں، کیوں کہ انسانیت کے پورے نصف حصے کو گرداینے کے معنی خود انسانیت کو گرداینے کے ہیں۔ ذلیل ماؤں کی گود سے عزت والے اور غیر تربیت یافتہ ماؤں کی آغوش سے اعلیٰ تربیت والے اور پست خیال ماؤں کے گہوارے سے اونچے خیال رکھنے والے انسان نہیں نکل سکتے لیکن مساوات کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کا حلقہ عمل ایک ہی ہو، دونوں ایک ہی طرح کام کریں، دونوں پر زندگی کے تمام شعبوں کی یکساں ذمے داریاں عائد کردی جائیں لیکن یہ فیصلہ کرنا اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک یہ ثابت نہ کردیا جائے (1) دونوں کے نظام جسمانی بھی یکساں ہیں۔ (2) دونوں پر فطرت نے ایک ہی جیسی خدمات کا بار ڈالا ہے۔ (3) دونوں کی نفسی کیفیات بھی ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ انسان نے اب تک جتنی بھی سائنٹفک تحقیقات کی ہیں ان کی روشنی میں تینوں تنقیحات کا جواب نفی میں ملتا ہے۔
جب حال یہ ہے تو غور کیجیے کہ عدل کا تقاضا کیا ہے؟ کیا عدل یہی ہے کہ عورت سے اُن فطری ذمے داریوں کی بجا آوری کے علاوہ اس بات کا بھی مطالبہ کیا جائے کہ وہ گھر اور بچوں کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ تمدنی ذمے داریوں کا بوجھ اٹھائے۔ عورت کو مردانہ کاموں کے لیے تیار کرنا عین فطرت کے خلاف ہے اس میں عورت کی ارتقا نہیں بلکہ انحطاط ہے۔ ارتقا اس کا نام ہے کہ قدرتی صلاحیتوں کو نشونما دی جائے، انہیں نکھارا اور چمکایا جائے اور ان کے لیے بہتر سے بہتر عمل کے مواقعے پیدا کیے جائیں۔
ثمینہ نعمان