پنجاب میں 46 ہزار سرکاری اسکول تباہ حالی کا شکار ہیں، میاں مقصود

192
منصورہ میں لاہور کے امرائے زونز کی تربیت گاہ سے حافظ محمد ادریس اور میاں مقصود خطاب کررہے ہیں ،ذکراللہ مجاہد ، جاوید قصوری، انور گوندل اور سرفراز احمد خان و دیگر بیٹھے ہیں
منصورہ میں لاہور کے امرائے زونز کی تربیت گاہ سے حافظ محمد ادریس اور میاں مقصود خطاب کررہے ہیں ،ذکراللہ مجاہد ، جاوید قصوری، انور گوندل اور سرفراز احمد خان و دیگر بیٹھے ہیں

لاہور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد نے کہا ہے کہ صوبے کے پرائمری اسکولوں کی حالت زار اور اس حوالے سے حکمرانوں کی بے حسی قابل مذمت ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب بھر میں 46 ہزار سے زائد اسکول ہیں مگر ان کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ اکثر عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ صوبے میں ابتدائی تعلیم کے لیے ایک لاکھ 83 ہزار 221 اور پرائمری سطح پر 1 لاکھ 5 ہزار 701 اساتذہ موجود ہونے کے باوجود شرح خواندگی صرف 61 فیصد سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمران خواب خرگوش میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2016-17ء میں تعلیم کے لیے مختص کی گئی رقم بھی بیورو کریسی کی نذر ہوتی نظر آتی ہے۔ حکومت کی جانب سے 2015-16ء کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 310 ارب روپے مختص کیے گئے جو کل صوبائی بجٹ کا تقریباً 21 فیصد بنتا ہے اور 2014-15ء کے مختص بجٹ سے 24 فیصد کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ثقافتی سرگرمیوں کی آڑ میں فحاشی وعریانی کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ نوجوان نسل کو بے راہ روی اور مادر پدر آزادی کا سبق پڑھایا جارہا ہے۔ کسی بھی ملک و ملت کا مستقبل نوجوان نسل کی صحیح رہنمائی اور اجتماعی سوچ کی مثبت نشوونما پر منحصر ہوتا ہے۔ یقیناًاس کے لیے بھرپور توانائیاں بروئے کار لاکر معاشرے کی ضروریات اور روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوان نسل کو تیار کیا جاتا ہے اور اس کار خیر میں تعلیمی اداروں کا کر دار کلیدی نوعیت کا ہوتا ہے۔ ملک میں نجی تعلیمی اداروں کی بھر مار ہے جو کہ بے تحاشا فیسیں لے کر نوجوانوں کو بھارتی اور مغربی تہذیب کا درس دینے میں مصروف ہیں۔ میاں مقصود احمد نے مزید کہا کہ عریانی و فحاشی کو فروغ دے کرکسی بھی معاشرے کو تباہ و برباد کیا جاسکتا ہے۔ مغربی اقوام آج اپنے خاندانی نظام کی تباہی کی اصل وجوہات کو تلاش کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ ان کے کلچر میں بے حیائی عام ہوگئی ہے۔ شخصی آزادی کے نام پر ایسے ایسے حقوق دے دیے گئے جن کے باعث وہاں کا پورا خاندانی نظام مفلوج ہوکر رہ گیا۔